آج مجھے وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کی خدمت میں کچھ معروضات رکھنا ہیں کیونکہ ” آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے”۔
میں یہ باتیں کبھی نہ کرتا اگر وزیر اعظم عمران خان کی جگہ اور کوئی اور ہوتا۔ یہ سطور میری ذاتی تکلیف اور کرب کی آئینہ دار نہیں ہیں، یہ سطور اس درد دل کا اظہار ہیں کہ عمران خان جیسا دیانتدار آدمی قدرت نے مہربانی کرتے ہوئے اس ملک کا وزیر اعظم بنا دیا تو ان کی ٹیم ان کے ساتھ نہیں چل پا رہی۔ ہمارا کیا ہے ، ہم تو ریگزاروں کے مسافر ہیں ۔ کرب تو یہ ہے کہ عمران خان جیسا کوئی وزیر اعظم پھر جانے کب ملے اور ملے بھی یا نہ ملے جو دیانت دار ہو ، شفاف ماضی کا حامل ہو اور قائد اعظم کا ویژن لے کر چلنے کی کوشش کر رہا ہو۔ عمران خان میں ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ خوبیاں موجود ہیں اور عمران خان کی ان خوبیوں سے اس ملک کی تعمیر نہ ہو سکی تو یہ اس قوم کی بد قسمتی ہو گی۔یہی بات مولانا طارق جمیل جیسا صاحب علم بھی اس قوم کو بتا رہا ہے اور یہی بات میرے جیسا طالب علم بھی کہے جا رہا ہے۔
بیوروکریسی ، وزارتیں اور مشیر جب معاملات خراب کرتے ہیں تو دکھ نہیں ہوتا ، ہم سالوں سے یہی دیکھتے آ رہے ہیں لیکن جب عمران خان کے دور میں ایسا کچھ ہونے لگے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔میں آج درد دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر جناب وزیر اعظم کی خدمت میں چند باتیں رکھنا چاہتا ہوں۔
عمران صاحب نے ٹی وی چینلز پر کرونا ریلیف فنڈ کے لیے ایک میراتھن کی۔ یہ ایک مبارک کام تھا جو عمران خان جیسا صاحب دل ہی کر سکتا ہے۔ اس موقع پر مشیر اطلاعات ایک ٹویٹ کرتی ہیں۔ ٹویٹ میں لکھا ہوتا ہے وزیر اعظم پاکستان ، پاکستان کے تمام ” میجر چینلز” کے ساتھ لائیو ہوں گے۔ میں نے جب سے یہ پڑھا ہے یہی سوچ رہا ہوں کہ محترمہ مشیر اطلاعات کی نظر میں ” میجر چینلز” کون سے ہیں ؟ میں یہ بھی جاننا چاہ رہا تھا کہ ” میجر چینلز” ہوتے کیا ہیں؟ کیا وزارت اطلاعات اور پیمرا کے ریکارڈ میں کہیں کچھ لکھا ہے کہ فلاں فلاں چینل میجر ہوں گے اور فلاں فلاں مائینر ہوں گے؟ کیا کسی چینل کے لائسنس پر درج ہے کہ یہ میجر ہے اور یہ مائنر؟ کیا یہ تقسیم موجودہ حکومت میں کی گئی ہے یا مشیر اطلاعات زرداری صاحب کے دور کی کوئی تقسیم اپنے ساتھ لے آئی ہیں اور تحریک انصاف کے کندھے پر رکھ کر اپنی ہی بندوق چلائے جا رہی ہیں؟
جناب وزیر اعظم ، مشیر اطلاعات کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ۔حالانکہ میں انہیں اتنی اچھی طرح جانتا ہوں کہ اتنا وہ خود کو نہ جانتی ہوں۔ ان کے بارے میں اور ان کی ترجیحات کے بارے میں سینہ گزٹ بھی بہت ہے لیکن وہ بھی میرا موضوع نہیں۔لیکن ان کے اقدامات کا بوجھ اگر عمران خان جیسے دیانت دار وزیر اعظم کی حکومت پر پڑے تو یہ میرا درد دل ہے اور اسی کا میں اظہار کر رہا ہوں۔ کیا عمران خان کے دور میں بھی وزارت اطلاعات پرانے زمانے کی پسند و ناپسند اور دیگر معاملات پر چلائی جائے گی جو سینہ گزٹ میں موجود ہیں؟
روز نیوز بھی ایک معتبر چینل ہے۔ واحد چینل ہے جس کا اپنا ضابطہ اخلاق ہے۔ جناب وزیر اعظم ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ روز نیوز واحد چینل ہے جو پانچ وقت اذان نشر کرتا ہے۔ پیمرا کی بار بار تحریری ہدایات کے باوجود کسی اور چینل نے اذان کا اہتمام نہیں کیا۔ روز نیوز کو اگر وزیر اعظم کے اس نیکی کے کام میں مدعو نہیں کیا جاتا اور ساتھ مشیر اطلاعات کہتی ہیں کہ پاکستان کے تمام میجر چینلز موجود ہیں تو مشیر اطلاعات کو یہ تو بتانا چاہیے کہ میجر چینل کون سا چینل ہوتا ہے؟ ریٹنگ کا کوئی طریقہ کار شفاف ہے تو مشیر اطلاعات ہمیں بھی بتائیں؟ چھ ہزار کیبلز میں سے کتنی کیبلز پر میٹر لگے ہیں؟ کیا یہ ایک شفاف نظام ہے؟ آیا وہ کون سا معیار ہے کہ کوئی چینل میجر ہو جائے کوئی ما ئنر۔ روز نیوز وقت پر تنخواہیں دیتا ہے۔ کسی ایک سٹاف ممبر کی ایک دن کی تنخواہ بھی بقایا نہیں۔ ہم نے کبھی ضابطہ اخلاق پامال نہیں کیا۔ تو کیا ہمیں اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ اے پی این ایس کے ساتھ جناب شفقت محمود اور مشیر اطلاعات کی میٹنگ میں میں نے اربوں کے اشتہارات کی تقسیم پر سوال اٹھایا تھا جو کسی کو ناگوار گزرا۔حقیقت عمران صاحب یہ ہے کہ آپ کے دور میں میڈیا کو بہت زیادہ پیسہ جارہا ہے لیکن اس کی منصفانہ تقسیم پر سوالیہ نشان ہے اور جو الیکٹرانک میڈیا کے ریٹس ہیں اس حوالے سے مجھے تو شفقت جلیل نے زیرو میں ملادیا،لیکن الیکٹرانک میڈیا کے ریٹس بنانے میں وزارت اطلاعات ”اپنوں کو نوازنے کا ” فارمولا چلاتی ہے ،اپنی مرضی سے ریٹس دیئے جاتے ہیں جن میں اقرباپروری واضح نظر آتی ہے ، اے اور بی کیٹاگری بنادی جاتی ہے ،جبکہ ایک پاکستان ہے مگر وزارت اطلاعات تفریق پیدا کررہی ہے ان کے پاس کوئی میکنزم نہیںکہ کس چینل کو کس حساب سے تولا جائے ،مصداق اس کہ ”اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو دے”جناب وزیر اعظم میں سمجھتا ہوں پاکستان کے تمام چینلز محب وطن ہیں ۔ کوئی غدار نہیں ۔ ان میں وزارت اطلاعات نے جو تقسیم پیدا کر رکھی ہے اس پر جناب کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ یہ پسند نا پسند پرانے دور میں تو چلتی تھی اسے عمران خان کے دور میں ختم ہو جانا چاہیے اور مشیر اطلاعات کو معلوم ہونا چاہیے اب نیا اور ایک پاکستان ہے۔مولانا طارق جمیل صاحب نے جو یہ کہا ہے کہ جھوٹ اور بے حیائی قوموں کو تباہ کرتی ہے یہ بات ساری قوم کو سمجھنی چاہیے لیکن وزارت اطلاعات کو تو سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ وہ اس بات کو سمجھے اور ایماندار آدمی اگر خوش قسمتی سے وزیر اعظم بن گیا ہے تو اس کی نیک نامی کا خیال رکھے۔
عمران خ
ان صاحب ! آپ کی دیانت کا ایک زمانہ شاہد ہے۔تین چیف جسٹس صاحبان ، جناب جسٹس ثاقب نثار صاحب ، جناب آصف سعید کھوسہ اور کم گو مگر صاحب علم جناب جسٹس گلزار احمد نے آپ کے بارے میں اچھے کلمات کہے میں اس وقت عدالت میں موجود تھا جب جناب جسٹس ثاقب نثار نے آپ کو ایک سچا اور دیانت دار کہا پھر جناب جسٹس کھوسہ صاحب چیف جسٹس بنے تو جوڈیشل اکیڈمی میں ریفریشمنٹ پروگرام میں انہوں نے کہا کہ نیازی صاحب تواڈی ملک لئی بڑی خدمات ہیں تے تواڈا عمران بڑا دیانت دار بندہ اے،پھر جناب چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد ایک کیس کی سماعت کررہے تھے میں بینچ نمبر 1میں موجود تھا تو اٹارنی جنرل کو انہوں نے کہا کہ: No doubt he is an honest person. جس نیک نامی کا اعتراف دنیا کر رہی ہے اس کا احساس وزارت اطلاعات کو بھی ہونا چاہیے۔
وزارت اطلاعات کے شفقت جلیل اس وقت سے خفا ہیں جب مجھ سے ایک اہم آدمی نے کہا کہ انہوں نے اپنی مدت ملازمت بڑھانے کے لیے شناختی کارڈ میں اپنی عمر میں جعلسازی کی۔ یہ بات ہر شخص کی زبان پر ہے ، اب شفقت جلیل غصہ کریں یا نہ کریں سینہ گزٹ تو بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ وہ تو جعلسازی سے اپنی پوری مدت کر کے ریٹائرڈ ہو گئے لیکن میں اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہا ہوں۔آپ کے ایک وزیر نے جن کا میں یہاں نام نہیں لکھنا چاہتا مجھے بتایا کہ آپ کے مسائل حل نہیں ہو سکتے کیونکہ وزیر اعظم کی ٹیم سمجھتی ہے کہ نیازی صاحب آپ فوج کے آدمی ہیں۔ یہ آپ کی ٹیم کے ہاں تو شاید الزام ہو گا میرے لیے تو فخر کی بات ہے۔پاکستان کی بہادر اور قابل فخرافواج سے نسبت طعنہ نہیں میرے لیے اعزاز ہے۔بہت کچھ سینہ گزٹ میں پنہاں ہے جو میں آپ سے ملاقات کے دوران عرض کرونگا۔
حلقہ احباب سردار خان نیازی
کالم
وزیرا عظم کے نام کھلاخط
- by Daily Pakistan
- اپریل 25, 2020
- 0 Comments
- Less than a minute
- 814 Views
- 5 سال ago
تحریر-سردار خان نیازی