کالم

وزیر اعظم کا دو ٹوک بیانیہ اور کٹھ پتلی بھارتی سپریم کورٹ

یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ 14اگست 1947کو جب مملکت خداداد پاکستان وجود میںآئی تو پاکستان نے اپنے قیام کے روز اول سے ہی کوشش کی کہ وہ اپنے سبھی ہمسایوں سمیت دنیا بھر کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھے۔مگر بد قسمتی سے بھارت کی شکل میں پاکستان کو ایسا ہمسائیہ میسر آیا جس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کو ئی موقع ہاتھ سے نہےں جانے دیا تبھی تو بھارتی حکمرانوں نے ایک جانب جونا گڑھ ،منوال اور دکن حیدر آباد کو ہڑپ لیا تو دوسری طرف طاقت کے زور پر ریاست جموں کشمیر پر اپنا تسلط جما لیا اور بھارت کا یہ ناجائز قبضہ خاصے بڑے حصے پر قائم ہے۔اسی حوالے سے یہ امر انتہائی توجہ کا حامل ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے چند روز قبل یہ بے سروپا دعوی ٰ کیا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے مبصرین کے مطابق کٹھ پتلی بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ درحقیقت عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری کے تمام حلقے اس بھارتی جھوٹ کی کھل کر مذمت کرئیں تاکہ عالمی امن کسی نئی آزمائش سے دوو¿چار نہ ہو۔اس پس منظر میں یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ خارجہ پالیسی کے محاذ پر پاکستانی ریاست ،سول سوسائٹی اور حکومت کے سبھی حلقے بھارتی سازش کو مزیدبے نقاب کرئیں ۔اسی حوالے سے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے دو ٹوک الفاظ میں کہاہے کہ بھارت کے غیر قانونی اقدامات سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی متزلزل نہیں ہو گی بلکہ اور مضبوط ہو گی ۔ اسی حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانیوں کے دل اپنے کشمیری بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے 14دسمبر کو مظفرآباد میں کیا۔ اس موقع پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستانیوں کے دل اپنے کشمیری بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے غیر قانونی اقدامات سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی متزلزل نہیں بلکہ اور مضبوط ہو گی ۔اسی ضمن میں انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، جو کچھ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہو رہا ہے پاکستان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر پر غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلہ دیا ہے اور ایسے کٹھ پتلی عدالتی فیصلوں سے زمینی حقائق نہیں بدلے جا سکتے، کشمیریوں کو طاقت کے زور پر زیر کرنے کا بھارتی خواب کبھی پورا نہیں ہو گا، دنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے مفاد اور سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس ضمن میں پاک وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور وزارت خارجہ کی ترجمان نے بھی بڑے مدلل اور مضبوط لہجے میں پاک موقف پیش کیا ہے۔ دوسری جانب سبھی جانتے ہےں کہ5جنوری کو ہر سال ایل او سی کے دونوں اطراف اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں مقیم کشمیری یومِ حق خودارادیت کے طور پر مناتے ہیں اور اس موقع پر دنیا کے انسان دوست حلقوں کی توجہ بھارت کی ریاستی دہشتگردی اور کشمیر پر اس کے نا جائز تسلط کی طرف دلانے کے لئے احتجاجی جلسے جلوس اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔اس موقع پر مبصرین نے کہا ہے کہ تقریباً ساری دنیا آگاہ ہے کہ 5 جنوری 1949 کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ قرار داد کے ذریعے بھارت سے کہا تھا کہ وہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے حقِ خودارادیت کا موقع فراہم کرے۔اس ضمن میں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں خود بھارت لے کر گیا تھا اور اس متفقہ قرار دار کے ذریعے اس نے اقوامِ عالم سے عہد کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دے گا۔ ابتدائی برسوں میں اس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم ”جواہر لعل نہرو“ اپنے اس وعدے پر کسی حد تک قائم بھی رہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ دہلی سرکار اس ضمن میں تمام وعدوں سے منحرف ہو گئی اور اس نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ کشمیر بھارت کاایک اٹوٹ انگ ہے۔کشمیر کے بے گناہ مگر غیور عوام نے ابتداءمیں تو کئی سال اس امید میں گزارے کہ شاید بھارتی حکمران اپنے وعدوں کا پاس کرلیں اور عالمی برادری بھارت کو سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے پر مجبور کرے مگر جب انھیں کہیں تو انصاف نہ ملا تو انھوں نے 1988 میں بھارت سے آزادی کی نسبتاً زیادہ فعال تحریک شروع کی تو قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی کا بد ترین سلسلہ شروع کر دیا۔انتہائی محتاط اندازے کے مطابق 1989 سے لےکر 30نومبر 2023 تک 96,278نہتے کشمیری بھارت کی سفاکی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔نومبر 2023 میں بھی دو معصوم بچوں سمیت 18کشمیری شہید ہوئے جبکہ نومبر کے دوران ہی 9 با عصمت خواتین کے ساتھ اجتماعی بے حرمتی کے واقعات پیش آئے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ یورپی یونین سمیت عالمی برادری کے کئی حلقوں نے ماضی قریب میں ایک سے زیادہ مرتبہ بھارت پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے اور اس مسئلے کا کوئی ایسا حل نکالا جائے جو تمام فریقین کےلئے قابلِ قبول ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے