سیاست میں کچھ حتمی نہیں ہوتا، کل کے حریف آج کے حلیف اور آج کے حلیف کل کو دشمن ہو سکتے ہیں۔ سیاستدانوں کی اکثریت کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ سب کی اولین ترجیح مخالفین کو اقتدار سے دور رکھنا اور اس کے لیے وہ سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ سیاسی تاریخ میں دباو¿، اشاروںاور بلیک میلنگ پر پارٹیاں بدلنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔یہ حقیقت بھی طے شدہ ہے کہ سب سیاستدان اقتدار کی کشتی پر سوار ہونا چاہتے ہیں جسکے لیے وہ کسی قانون، ضابطے، آئین اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کو اہمیت نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ سیاست میں باپ پر بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا، کل تک باپ کو اسٹیبلشمنٹ کا برین چائلڈ قرار دینے والوں نے آج اقتدار کے زینوں پر چڑھنے کیلئے انہی سے جپھی ڈال لی ہے ، فرشتے ،نادیدہ قوتیں خفیہ ہاتھ اور خلائی مخلوق ، کے ذکر کے بغیر بھی ہمارا جمہوری کلچر ادھورا ہے، ہمیں ہر اس اقدام میں خرابی نظر آتی ہے جو مروجہ طریقے سے ہٹ کر ہو چاہے اس میں وسیع تر قومی مفاد ہی کیوں نہ ہو ۔سیاستدان بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں، اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کیلئے وہ ہمیشہ بیساکھیوں ، دلفریب اور جھوٹے نعروں کا سہارا لیتے ہیں، ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں، لاڈلہ ،لاڈلہ پلس سلیکٹڈ اور امپورٹڈ کی گردان کرتے ہیں اس لئے کہ وہ خود بھی لاڈلہ سلیکٹڈ بننے کے لئے تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ سلیکشن کرنیوالے ان پر دست شفقت رکھیں۔اب تک کے حالات سے یہ بات بھی واضح ہے کہ سیاست اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے یہاں سیاست اخلاقی قدروں پر نہیں بلکہ مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ ووٹ کو کوئی عزت دینا پسند نہیں کرتا ،نعرہ اور بیانیہ ضرور بنایا جاتا ہے کہ ووٹ کو عزت دو اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب سلیکشن کرنیوالے کسی کو سلیکٹ کر لیں، امپورٹ کر لیں یا لاڈلہ بنا لیں پھر اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے کہ کس طرح سلیکٹڈ کو اقتدار میں لانا ہے یہاں حکومتیں گرانے ،بنانے کےلئے جہاں بڑوں کی آشیرواد ضروری ہوتی ہے وہاں سیاسی لوٹے اور لوٹا پارٹیاں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں اور یہ ہر موسم اور ہر وقت دستیاب ہوتی ہیں، انتخابات سے پہلے اور بعد میں بھی لوٹے لوٹ مار کے لئے وفاداریاں بدلتے ہیں اور لوٹ کا مشن مکمل ہوتے ہی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔سیاسی لوٹوں کا ظرف اپنے قد کی طرح چھوٹا ہوتا ہے جہاں مال اور عہدہ دیکھا چھلانگ لگا دی یہ بھی نہیں دیکھتے پانی گہرا ہے ڈوب جائیں گے یا نکل آئیں گے، کہتے ہیں ہر بکنے والی چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور ہر خریدنے والا حسب ضرورت مول لگا تا ہے۔لوٹے نظریے اور وفاداری کے قائل نہیں ہوتے بلکہ فنکار ہوتے ہیں، موقع محل دیکھ کر مول لگواتے ہیں ۔ وہ اکثر بڑی دھج سے جماعت بدلتے ہیں لیکن جلد بے عزت اور بے توقیر ہو جاتے ہیں۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی یہ لوٹے مینڈک کی طرح پھدکتے ہیں، جہاں زمین نرم ہو اچھا بھاﺅ لگے وہیں کے ہو جاتے ہیں،یہ لوٹے بغیر پیندے کے ہونے کے باوجود قیمتی ہوتے ہیں، کیوں کہ حکومت کا تانا بانا ہوتے ہیں۔لوٹوں کے انٹرویو بھی لئے جاتے ہیں، وہ اس قدر جھوٹ بولتے ہیں کہ الاامان الحفیظ۔ انٹرویو لینے والے بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ تو شرم نام کے لفظ سے واقف نہیں ہوتے، جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرنے سے نہیں چوکتے۔لوٹوں نے مارچ 2021 میں چیئرمین سینٹ کے انتخابات میں کس طرح اکثریت کو اقلیت میں بدلا۔ 2013 میں ن لیگ اور2018میں پاکستان تحریک انصاف کو برسر اقتدار لانے کیلئے بھی ان کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔لوٹوں کے ٹولے کو لائق مائنڈڈ یا فارورڈ بلاک کے نام سے پکارا جاتا ہے جب کسی پاپولر سیاسی جماعت کو اقتدار سے باہر رکھنا ،اکثریت کو اقلیت اور جیت کو ھار میں بدلنا مقصود ہو تو صاحبان اختیار سیاسی جماعت کے اندر یہ گروپ اور بلاک تشکیل دے کر من پسند نتائج حاصل کر لیتے ہیں۔ یوں ایک طرف عوام کے مینڈیٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں تو دوسری طرف اس سیاسی جماعت کے حصے بخرے کر دئیے جاتے ہیں۔ عوام اب باشعور ہو رہے ہیں حالات تقاضا کرتے ہیں کہ ہمیں پرانا انداز سیاست بدل کر آئین و قانون کی پاسداری اور عوامی رائے کے احترام پر مبنی سیاست کو پذیرائی دینا ہو گی۔اکثریت کو اقلیت میں بدلنے والا رواج ختم اور اصولوں کی سیاست کرنا ہو گی ۔ سیاسی تاریخ اور سیاسی منظر پر نظر دوڑائیں تو عیاں ہوتا ہے کہ ووٹ کے تقدس کو پامال کرنے میں ریاست کے چاروں ستونوں نے حصہ بقدر جثہ کام ڈالا اور اداروں کو ذاتی مقاصد کےلئے استعمال کیا گیا۔ اعلان کی حد تک انتخابات کی ساعتیں قریب آ رہی ہیں مگر سیاسی سرگرمیوں میں وہ تپش دیکھنے میں نہیں آ رہی جو انتخابی مہم کا خاصا ہوا کرتی ہے۔ بظاہر سیاسی جوڑ توڑ اور اتحاد تشکیل پا رہے ہیں۔ ایک کی سلیکشن بھی ہو چکی دیگر کے تحفظات اور لیول پلینگ فیلڈ کے مطالبات نظر انداز تو کیا ہم ماضی دہرانے جا رہے ہیں اگر ایسا ہے تو اس پریکٹس کا فائدہ؟
٭٭٭٭٭
کالم
ووٹ کی بے عزتی کا پروگرام
- by web desk
- دسمبر 14, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 375 Views
- 1 سال ago