محبت کے اپنے ہی دکھ ہوتے ہیں ۔ اپنوں اور ان کے سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔میری ماں بھی میرے لئے ایسی ہی تھی ایک سہارا، غمگسار،سر پر رکھا ایک مہربان اور شفیق سایہ،جو آج میرے ساتھ نہیں،دل بے سکون ہے،روح کو چین نہیں،وجود ایسا کہ جیسے ٹوٹا ہوا،زندگی بے کیف،سرورنام کو بھی نہیں رہاہے۔دل کسی طوربھی بہلنے سے بہلتا نہیں ہے۔ آرام و چین ذرا سا بھی نہیں ہے ۔ کہنے کوزندگی تو ہے مگر بڑی بے چین اور اداس سی لگتی ہے۔پہلے ماں کی بیماری کے سبب بے چین ماں کو دیکھتے نیند نہیں آتی تھی،اب ماں نظر نہیں آتی تو نیند نہیں آتی ہے۔بن ماں حال یہ ہے کہ دن رات کے اگلے پچھلے پہر،جس وقت رات کو لوگ سوتے رہتے،روتا رہتا ہوں .ایسے میں آنسو¶ں کی لگی ایک جھڑی ہوتی،جو رکنے کا نام نہیں لیتی ہے۔اکثر راتوں کو بڑی شدت سے،حالت غم میں ماں یاد آتی ہے تو پھر نیند بالکل نہیں آتی ہے۔ماں کی جدائی میں پیارا، معصوم، محبتوں بھرا چہرا نظرآتا ہے تو شدت غم سے دل پھٹ سا جاتا ہے ۔ بےاختیار زاروقطار صرف رونے کو دل کرتاہے اور بہت زیادہ اوربے تحاشا کرتا ہے۔ماں کی مجھ پر شفقت و محبت مجھے بہت تڑپاتی،جینے نہیں دیتی ہے ۔ ایسے میں صرف اور صرف ماں ہی کا ہاتھ اور ساتھ چاہتی ہے۔ماں ہے ہی ایک ایسا رشتہ کہ جو دنیا میں سب سے زیادہ آپ سے مخلص ہوتا ہے دوسر ااور کوئی نہیں ۔ زمانے کے بہت سے خوبصورت رنگ ہیں مگر سب سے حسین رنگ ماں کا ہے۔ماں آپ کی ماں ہی نہیں ہوتی،آپ کا سب کچھ ہوتی ہے۔دنیا کی ساری محبتوں کے رنگ ایک ماں کی محبت کے رنگ میں یکجا ہوتے ہیں اور اتنے حسین اور خوبصورت تاثر چھوڑتے ہیں کہ دنیا میں اس سے بڑھ کر شائد ہی کوئی اور حسین تصویر ہو۔ماں اولاد کےلئے ایک بہترین سایہ ہوتی ہے۔ماں سے بڑھ کر دنیامیں اور کچھ بھی نہیں ہے اور یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا کہ وہ میری ماں تھی بلکہ اس لیے کہہ رہاہوں کہ وہ ایک عظیم ماں تھی۔میری ماں میری مربی و رہنماءتھی،جینے کا سلیقہ،زمانے میں پنپنے کا طریقہ میں نے ان سے ہی سیکھا۔اولاد پر پڑی مصیبت میں ایک سخت چٹان جیسی تھی اور عام حالت میں لوگوں سے لڑائی جھگڑانہ کرنے ، انتقام نہ لینے اور معاف کردینے کی بات کرتی تھی ۔اکثر کہتی تھی کہ بیٹا! دنیا کومحبت ووقار سے جیتتے،سختی سے نہیں،ہمیشہ نرمی کیا کرو، سختی نہ کیاکرو۔اکثر جب بھی اخبارات میں کسی بھی اہم ایشوپر لکھتا تو کہتی کہ بیٹا! مجھے پتا ہے کہ تم ٹھیک ہو مگر زمانہ سچ نہیں سنتا، زمانے کو وہ سناو،جو وہ سننا چاہتا،زمانہ تمہاری بے تکی باتوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔بیٹا! سچ بہت کڑوا اورتلخ ہوتا،نہ بولا کرو۔بیٹا! زمانہ دو دھاری تلوار جیسا،ادھر بھی چلتا، ادھر بھی چلتا۔بیٹا!میں تم سے بہت مخلص،کوئی دوسرا نہیں،ایسا نہ کیا کرو ۔ اکثر کہتی بیٹا! ان کالموں میں کیا پڑا ہوا، زمانہ کچھ اور چاہتا ہے۔زمانے کو وہ دو،جس کا وہ خواہشمند اور خود اپنے لیے وہ چنو،جو تمہاری ضرورت ہے۔اکثر مجھے کہتی کہ بیٹا! لوگ مجاں دے ویر کٹیاں کولوں لیندے ، بیٹا!لوگ بہت ظالم،تم بہت بھولے،لوگ مزے لیتے،ساتھ نہیں دیتے ہیں۔اکثر کہتی کہ بیٹا! اپنی بات کہنے اور منوانے کےلئے رویا نہ کرو ، ہنس کراور تیوری چڑھائے بغیر کیا کرو اور ایک اور بات بیٹا! دنیا ہنسنے والوں کا ساتھ دیتی ، رونے والوں کا نہیں، رو¶ گے تو خود ہی اکیلے ہی ر¶و گے،ہنسو گے تو زمانہ بھی ساتھ دے گا۔اکثر بولتی کہ بیٹا! صحیح کے سامنے سر تسلیم خم کرو اور کوئی غلط بات کہے تو اس پر بھی گرفت کرنے کی بجائے اسے معاف کردو ۔ کسی کو دیوار سے نہ لگاو ،جسے لوگ یا پیداکرنے والادیوار سے لگا دے، اسے اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ معافی بہترین انتقام ہے اور ہمارے لیے بحیثیت انسان یہی سرمایہ زندگی ۔ اکثر مجھے سمجھاتے کہتی کہ بیٹا! دنیا میں اپنا نام و مقام پیدا کرو، لوگوں کے کام آیا کرو،نیکی کے کام کیا کرو،غصہ نہ کیا کرو،غصہ عقل کا دشمن، سخت نقصان دیتا ہے ۔ بیٹا! صرف اتنا جان لو، محبت فاتح عالم ہوتی،بے غرض خدمت ہی انسانیت ہے ۔ آنسو¶ں کی لگی جھڑی، شدت غم اور دنیا ویران حالت میں اے میری پیاری ماں (ایسے میں جبکہ میں تنہا رہ گیا ہوں)میں تجھے ڈھونڈوں تو ڈھونڈوں کہاں۔
چٹھی نہ کوئی سندیس
جانے وہ کو ن سا دیس
جہاں تم چلے گئے
٭٭٭٭
کالم
ویران دنیا اور ماں کی یاد
- by web desk
- نومبر 16, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 985 Views
- 2 سال ago