کالم

ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں

ہر کام کا ایک وقت ہوتا اور وقت پر ہونے والا کام ہی برمحل ہوتا ہے ،بے وقت ہونے والے کام کے اکثر فائدے کی بجائے نقصانات ہوتے ہیں ،وقت سے پہلے اور مقررہ وقت کے بعد ہونے والا کام ہی "ہےوقت کی راگنی” کہلاتا ہے ۔جو کام وقت پر نہیں ہوپاتا اسکے ۔ بر”گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں” وقت تھمتا نہیں رکتا نہیں وقت جدید بھی ہےاورقدیم بھی ۔ہم سب وقت کے تابع ہیں مگر وقت کسی کے تابع نہیں۔ وقت چلتا رہتا ہے رکتا نہیں۔ اس میں تسلسل ہے رکاوٹ نہیں۔ ہم وقت پورا کرتے یا ہمارا وقت ،،پورا،، ہو جاتاہے ہم وقت کا انتظار کرتے ہیں وقت کبھی ہمارا انتظار نہیں کرتا۔ آچھے وقت کے انتظار میں برا اور برا وقت اچھے کے طرف بڑھ جاتا ہے۔وقت گزرتا جاتا ہے ہم بے بس تماشائی بنے رہتے ہیں وقت ازل سے ہم سب کو دیکھ رھا ہے ابد تک دیکھتا رہے گا ۔۔ہم نے کچھ نہ دیکھا اور دیکھا تو سراب دیکھا ہم گزرا وقت واپس چاہتے ہیں جو کسی طور ممکن نہیں۔ ہمیں اگر وقت کی قدر نہیں تو وقت کو بھی ہماری قدر نہیں وقت ہر ایک کو ملتا ہے ہم ہی وقت کو نہیں ملتے ۔برا وقت طویل اور اچھا وقت قلیل ہوتا ہے وقت کا لمحہ لمحہ سرکتا ہے ہم سرکنے کو تیار نہیں ہوتے۔ہم اگروقت کو برباد کرتے ہیں تو وقت ہمیں برباد کرتا ہے،وقت وسعت لئے ہوئے ہے ہم تنگ ہیں۔ہم وقت کو نہیں جانتے مگر وقت ہمیں جانتا ہے وقت گزرجاتا ہے ہم ھاتھ ملتے رہ جاتے رہتے ہیں وقت نے بہت ساروں کو بدل ڈالا روند ڈالا کوئی وقت کو نہیں بدل سکا۔ شباب و جمال وقت کے تابع، وقت میں وسعت ہے ہم میں تنگی جس نے وقت ضائع کیا اس نے خود کو ضائع کیا وقت ماضی سے حال اور مستقبل کی طرف رواں دواں، کوئی نہیں جانتا وقت کا آغاز کب ہوا اختتام کب ہوگا۔
واصف علی واصف فرماتے ہیں،، اگر انسان وقت ہو جائے تو ہمیشہ رہے گا۔۔۔۔ اگر وقت انسان ہو جائے تو باقی نہ رہے گا۔۔۔۔ انسان نے وقت کو تقسیم کر کے خود کو برباد کر کیا ۔۔۔۔۔۔ا ہمارا وقت گھڑیاں کھا گئی ہیں۔۔۔۔ گھڑیاں بڑھ گئی ہیں اور عمر گٹ گئی ہے۔۔۔۔۔ جب پپمائش نہیں تھی تو وقت وسیع تھا جب پیمائش کی جانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروگرام بن گئے پابندی شروع ہوئی۔۔۔۔ باقاعدگی کی وباءپھیل گئی۔۔۔۔۔ وقت بیمار ہو گیا کیونکہ وقت دن ہے نہ رات نہ موسم نہ تاریخ ۔۔۔۔۔وقت بس وقت ہے ہر اغاز سے ازاد ہر انجام سے بے نیاز،، وقت بہتا دریا ہے ،مادی وجود سے ماورا مگر حقیقت یہی ہے وہ مادیت سے باہر اپنا وجود رکھتا ہے انسان کا وقت زندگی کے پیمانے سے ناپا جاتا ہے نسل انسانی کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی ہے وقت نظام شمسی کے وجود سے وابستہ ہے ۔کائنات پہلے تشکیل پائی یا وقت؟ اگر کائنات پہلے تخلیق ہوئی تو پھر چاند سورج بھی ساتھ ہی تخلیق ہوئے یوں ثابت ہوا دونوں ساتھ ساتھ وجود میں آئے۔ ہم اگر وقت کی قدر نہ کریں گے تو وقت بھی ہماری قدر نہیں کرے گا وقت کبھی خوشگوار اور کبھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہم سب وقت کے پنجے میں ہیں ، روٹھا یار منا سکتے ہیں وقت نہیں۔ نیند وقت کے تابع ہے وقت نہیں، وقت وقت ہے مقامی ہومعیاری یا عالمی ہم نے اسے گھڑیوں کے تابع کر دیا وقت امتحان لیتا ہے دیتا نہیں۔ بارش وقت کے تابع برسے تو رحمت بے وقت برسے تو زحمت، وقت مشکل بھی ہے اور آسان بھی ۔یہ فیصلہ ہم نے کر نا ہے کہ کون سا وقت قیام کا ہے اور کون سا سجدے کا درست فیصلہ کیا بچ نکلیں کے میزان سے۔ موت کا وقت مقرر ہے فرشتہ اجل آ جائے تو ایک لمحہ نہیں ملتا وقت ختم نہیں ہوتا بلکہ ہم ختم ہو جاتے ہیں وقت نظر نہیں آتا ہم نظر اتے ہیں وقت سب کو ملتا ہے کوئی موسی بنتا ہے تو کوئی فرعون، انسان اور ارض وسماع سب وقت کے پابند،ہم وقت کے غلام،وقت اور انسان کاساتھ پرانا ہےاور دونوں ہی جلد بدل جاتے ہیں جو وقت کیساتھ چلتے ہیں وقت ان کے ساتھ چلتا ہے،وقت کامیابی کی جانب لے جاتا ہے،وقت قیمتی اثاثہ ہے دوست بھی ہے دشمن بھی ہم وقت قید نہیں کرسکتے، مگر شاعر نے وقت تبدیل کرنے والے کی نشاندہی کررکھی ہے ۔
تو جو چاہے تو بدل سکتی ہے سارا منظر
وقت کی قید نہیں درد کی رفتاروں پر
وقت ہمیں قید کر سکتا ہے وقت قیمتی اثاثہ ہے وقت کی قید سے کوئی جلد آزاد ہو جاتا اور کوئی دیر سے انسانی فطرت ہے زندگی کی قید سے کوئی ازاد ہونا چاہتا۔ایک نئے سال کی آمد ہے پچھلا سال قدیم میں شامل ہو گیا۔سادہ زبان میں وقت کی تعریف دو واقعات کے درمیانی وقفہ کو کہا جا سکتا ہے، تاریخ اسلام میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقعہ ایسا ہے کہ جب وقت رک گیا، رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ رب العزت نے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجد اقصی تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات کی بے انت وسعتوں کے اس پار قاب قوسینِ اور و دن کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدتوں وہاں قیام کے بعد اسی قلیل مدتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ افروز بھی ہو گئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم معراج پہ پہنچے اور پھر واپس آئے ،یہ اتنا قلیل وقت تھا جس میں سب کچھ ہوا کیا اجرام فلکی کی گردش رک گئی یا وقت رک گیا۔اسی طرح سورج کو پلٹا کر وقت کو اپنے تابع کرنے کااعجاز دکھاکر مولائے کائنات نے خدا کی طاقت کا برملا اظہار کیا ،دنیا کے سامنے کئی راز کھولنے والی ہستیوں کا ہم سے دور ہونا بھی وقت کے ساتھ چھوڑدینا کے ہی مصداق ہے ،وقت کے ساتھ چلنا ہی زمانہ سازکہلاتے ہیں ،مگر ہم انکے کمال ہنر کو سمجھنے سے قاصر رہے ،اسی طرح آج جب پاکستانی سیاست میں انتخابی مہم زوروں پر ہے اور بہت کچھ تبدیل ہورہا ہے اس پر کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا ۔جوڑ توڑ اور وفاداریاں بدلنے کی روایت تو بہت پرانی ہے مگر یہ بات کچھ سیاستدانوں کو ممتاز شاعرہ پروین شاکر کی طرح سمجھ نہیں آئی ۔
موسم مزاج تھا ،نہ زمانہ سرشت تھا
میں اب بھی سوچتی ہوں وہ کیسے بدل گیا
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے