تحریر! عرفان صدیقی
پر امن اجتماع اور امن عامہ بل 2024، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری اور صدر مملکت کی توثیق کے بعد باضابطہ طور پر قانون بن چکا ہے۔ اس قانون کا دائر اطلاق صرف اسلام آباد تک محدود ہے۔ یہ پانچ جماعتوں کا تیار کردہ پرائیویٹ بل تھا جس پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا، بلو چستان عوامی پارٹی کی سینیٹر ثمینہ ممتاززہری، عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر عمر فاروق ، ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری اور مسلم لیگ (ن)کی طرف سے میں نے دستخط کئے۔ یہ بل کسی اجتماع کو نہیں روکتا، کسی سیاسی سرگرمی پر قدغن نہیں لگاتا، آزادی اظہار کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ ہر مہذب جمہوری ملک کی طرح ، اجتماع واحتجاج کے بنیادی حق کو عام شہریوں کے بنیادی حقوق سے ہم آہنگ کرتے ہوئے نظم وضبط کے قرینوں میں لاتا یعنی ریگولیٹ (Regulate) کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 16 قرار دیتا ہے کہ امن عامہ کے مفاد میں ، قانون کے ذریعے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ہر شہری کو پر امن طور پر اور اسلحہ کے بغیر جمع ہونے کا حق ہوگا۔ کیاآئینی آرٹیکل واضح طور پر ایک قانون کا تقاضا کرتا تھا۔ تاخیر سے ہی سہی حالیہ قانون کے ذریعے آئین کا یہ تقاضا پارلیمنٹ نے پورا کر دیا ہے۔
اسلام آباد شہر ایک عرصے سے ایسے قانون کی ضرورت محسوس کر رہا تھا جس کی صرف دو بڑی سڑکیں بند کر دی جائیں تو وہ پنجرہ بن کے رہ جاتا ہے۔ شاہراہ دستور کے پہلو میں ایک سو کے لگ بھگ ممالک کے سفارت خانے قائم ہیں۔ اسی پر ایوان صدر، وزیر اعظم آفس پارلیمنٹ ہاس، سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ، پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز، ریڈیو پاکستان، دفتر خارجہ، وفاقی محتسب، ایف بی آر، ارکان پارلیمنٹ کی رہائش گا ہیں (پارلیمانی لاجز)اور تمام وفاقی وزارتوں کے دفاتر ہیں۔ اس شاہراہ کو دبوچ لینے کے معنی حکومت کی پوری انتظامی مشینری کو مفلوج کر دیتا ہے۔
اس کا ایک بڑا ہی ہولناک تجربہ 2014 میں ہوا جب عمران خان اور طاہر القادری اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے اور تمام تحریری ضمانتوں کو پامال کرتے ہوئے اسلام آباد کی شہ رگ ، شاہراہ ر دستور پر خیمہ زن ہو گئے ۔ طاہر القادری تو 70 دن بعد کھد ی قبروں کے دہانے کھلے چھوڑ کر کفن پوش فدائین کے ہمراہ واپس چلے گئے لیکن خان صاحب 126 دن تک ڈی چوک پر قابض رہے۔ اس دھرنے نے کیا کیاکچھ کیا اور کیسی کیسی ناروا روایات قائم ہو ئی۔547 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ در ار پورٹ ( 26 نومبر 2017) کے مطابق ریاست کو کا ہوا ۔ سب سے بڑا زیاں یہ ہوا کہ ریڈ زون اور شاہر او دستور کی حرمت پامال کردی گئی۔ شہر کے کمتر در دفاع، قانون شکنوں کی دیدہ دلیری اور شہریوں کی بے بسی آشکارا ہوگئی ۔ دوون اور آج کا دن شاعر او دستور چین کی نیند سو سکی نہ ڈی۔ چوک کو قرار ملا۔ دس برس سے یہ چان جاری ہے۔ اس وقت بھی چار سو کے لگ بھگ کنٹیز مختلف ناکوں پر کھڑے ہیں جن کا کمرا یہ کروڑوں روپے میں ہے۔
پر امن اجتماعات اور امن عامہ کے حوالے سے تمام مہذب جمہوری ممالک نے کڑے قوانین بنارکھے ہیں۔ برطانیہ اس ضمن میںسر فہرست ہے۔ کر میٹل ڈیمیج ایکٹ 1971 1971 Criminal Damage Act) پاک آرد را یک 1986 (1986 Public Order Act)، عوامی اجتماعات کی ضابطہ بندی کرتے ہیں۔ پبلک آرڈرایکٹ کی شق ایک کے تحت بار ویا بارہ سے زائد افرد کے غیر قانونی اجتماع، پیرانی کے مشترکہ مقصد کے لئے جتھہ بندی اور عام شہریوں میں عدم تحفظ کا ہر اس پھیلانے کی سزادی سال قید ہے اور زیادہ سے زیادہ جرمانے کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اگر کسی عوامی جگہ پر بلا اجازت جمع ہونے امن وامان میں خلل ڈالتے اور خوف و ہراس پھیلانے والے افراد کی تعداد صرف تین ہے تو انہیں پانچ سال قید کی سزادی جاسکتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بدامنی اور ہنگامہ دفساد پھیلانے والوں کے لئے میرلیس کر انتر ایکٹ (Serious crimes Act) کے نام سے ایک الگ قانون موجود ہے جس میں تکمین سزا میں تجویز کی گئی ہیں۔ برطانیہ میں ان دنوں بھی یہ قوانین پوری طرح متحرک ہیں۔ 29 جولائی کے بعد سے غیر قانونی اجتماعات اور ہنگاموں ۔ ذریعے کڑی سزائیں دی جارہی ہیں ۔ عالم یہ ہے کہ ان سزاں کی وجہ سے جیلوں میں گنجائش کم پڑ گئی ہے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ پرانے قیدیوں کی سزاں میں کی کر کے نئے قیدیوں کے لئے گنجائش نکالی جائے۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں سے ہر ایک نے امن عامہ اور غیر قانونی اجتماعات کے لئے قوانین وضع کر رکھے ہیں۔ تو پارک میل کرد (New York Penal Code) غیر قانونی اجتماع اور بدامنی پر اکسانے کی سزا چار سال تجویز کرتا ہے۔ فرانس میں افریچ پینل کوڈ (French Penal Code) کے آرٹیکل 431 کے تحت غیر قانونی اجتماع اور امن عامہ کی شق 3 میں خلاف قانون اجتماع اور بدامنی میں ملوث افراد کے لئے سات سال قید اور ایک لاکھ اور وجہ مان تجویز کیا گیا ہے۔ ایسے ہی تخمین قوانین اور ضابطے دنیا کے تمام مہذب جمہوری ممالک کے نظام تعزیرات کا حصہ ہیں۔
پر امن اجتماع اور امن عامہ قانون ، احتجاج اور اجتماع کے حق کو آئین کے الفاظ میں معقول پابندیوں” کے دائرے میں لانا ہے۔ احتجاج اور اجتماع کو بنیادی حق قرار دینے والے دستوں نے عام شہریوں کے بنیادی حقوق کا بھی بڑی صراحت سے ذکر کیا ہے۔ ان آئینی حقوق کے درمیان توازن قائم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اجتماع اور احتجاج کے حق کو معقول پابندیوں (Reasonable Restrictions) کے تابع رکھنے کا آئینی تقاضا لازم قرار دیتا ہے کہ اس حق کو لامحدود اور بے مہار نہ ہونے دیا جائے۔ اس حق کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ عام شہریوں کے حقوق سلب کر کے ان کی زندگیاں اجیرن بنادی جائیں۔ وہ اپنے گھروں سے نہ نکل پائیں۔ بچے درس گاہوں کو نہ پہنچ پائیں۔ امتحانات نہ دے سکیں۔ مریض ہسپتالوں تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیں۔ عاملہ خواتین ، گاڑیوں میں بچے جنم دیتی رہیں۔ مزدور خالی ہاتھ فاقہ کشی بچوں کے پاس لوٹتے رہیں۔ 25 لاکھ شہری عذاب پیم کی صلیب پر چھوٹتے رہیں اور دنیا بھر کے سفیر، پاکستان کے دارالحکومت کی تصویر بھی کرتی رپورٹس اپنے اپنے ممالک کو بھیجتے رہیں۔ کوئی سیاح کیوں ادھر کا رخ کرے گا؟ کوئی سرمایہ کار کیوں یہاں آئے گا ؟ سیاست بازی کرنے والے اتنا تو بتا دیں کہ کون سے ملک میں ایسے بے ہنگم اور قاعدے قانون سے ماوری اجتماع کا حق حاصل ہے؟
تحریک انصاف نے ایوان کے اندر اور قائمہ کمیٹی میں بل کی بھر پور مخالفت کی لیکن کوئی ایک بھی ترمیم تجویز یا قریش نہیں کی۔ تین برس کی سزا انتہائی ہے جس کا دارو مدار ، عدالت کی صوابدید پر ہے۔ یہ سزا تین مادیا اس سے کم بھی ہو سکتی ہے۔ اس جرم کا مرتکب شخص اگر ایک سزا پانے کے بعد بھی یہی عمل دو براتا ہے تو زیادہ سے زیادہ سزا دس برس ہے جس کا فیصلہ بھی بہر حال عدالت کو کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ نے پوری نیک نیتی کے ساتھ آئینی تقاضوں کے مطابق قانون سازی کر دی ہے۔ انتظامیہ اور عدلیہ کو اس قانون کی حقیقی روح کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اقدامات کرتا ہوں گے تا کہ کسی جماعت یا گروہ کے حق کا تحفظ پچیس لاکھ شہریوں کے حقوق کا قتل نہ بنے پائے۔
برسوں سے سیاسی ، مذہبی یا کسی بھی نوعیت کے اجتماع کا معاملہ ضلعی انتظامیہ کی اندھی صوابدید پر تحصر ہے۔ قانون کے تابع آنے کے بعد توقع ہے کہ کسی بے تکے بہانے کو پر امن اجتماع کا آئینی حق سب کرنے کا جواز نہیں بنایا جا سکے گا۔
کالم
ُپُر امن اجتماع کا قانون …….ایک آئینی تقاضے کی تکمیل!
- by Daily Pakistan
- ستمبر 9, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 168 Views
- 6 مہینے ago