کالم

پارلیمان کی بالادستی کی جنگ

سپریم کورٹ کی ہدایت پر تاحال وفاقی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو ایک پائی جاری نہیں کی بلکہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا ہے اس دوران پارلیمان سے منظور کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور کرکے صدر مملکت کو بھجوایا تو انہوں نے حسب توقع اس پر دستخط کیے جانے کے خدشات کے پیش نظر پہلے سے ہی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کا جاری رکھا ہوا تھا اس لئے اگلے روز پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے سپریم کورٹ پریس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023دوبارہ منظور کر کے صدر کو بھجوا دیا جو صدر مملکت کی جانب سے دستخط نہ ہونے کی صورت میں قانون بن جائے گا ۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو ابھی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوئی تھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرنے کےلئے اپنی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ اس بینچ نے ابھی سماعت شروع نہیں کی تھی حکومتی حلقوں کی طرف سے انگلیاں اٹھنے لگیں ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مل بیٹھ کر معاملات کا سیاسی حل تلاش کرنے کا وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ سیاستدان پاکستانی قوم کی خاطر ڈائیلاگ کرکے کسی سیاسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تاحال عمران خان کو مذاکرات کی باضابطہ دعوت نہیں دی ۔ ویسے بھی عمران خان وزیراعظم کے ساتھ بیٹھنے کےلئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ کسی کےلئے تیار نہیں اور وہ کسی مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے میرے ساتھ انتخابات کے ایشو پر حکومت سے بات کر سکتی ہے ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہورہا ۔ہماری لڑائی مقننہ اور عدلیہ میں لڑائی جاری ہے ۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں جہاں پنجاب اسمبلی میں انتخابات کرانے کےلئے رقم فراہم کرنے کا بل پیش کر دیا ہے وہاں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے ملک میں ایک ہی روز قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی قرارداد منظور کرا لی۔ پی ٹی آئی اس بات پر بضد ہے کہ نوے دن کے اندر ہی دو اسمبلیوں کے انتخابات کرنا لازمی امر ہے لیکن اس دوران سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کا جس طرح مذاق اڑایا جا رہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ سپریم کورٹ کے لئے بھی یہ سوچنے کا مقام ہے ۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان میں پارلیمنٹ کی بالادستی کی لڑائی لڑی جارہی ہے۔طویل عرصہ تک ملٹری اور سول بیوروکریسی کے ذریعے پارلیمان کی بالادستی کی نفی کی جاتی رہی کبھی گورنر جنرل کھڑے کھڑے وزیراعظم کو گھر بھیج دیتے رہے کبھی فوج ڈکٹیٹر کٹھ پتلی وزیراعظم کو تگنی کا ناچ نچاتے رہے۔ منتخب وزیراعظم کو گھر بھجوانے کے لیے آئین میں 58-2B ایجاد کر لی گئی اس کا خاتمہ ہوا تو منتخب وزیراعظم کو عدلیہ کے ذریعے گھر بھجوانے کا کھیل شروع ہو گیا جو تاحال جاری ہے ۔ 1997ءمیں سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا ہم اسے بھلا نہیں سکتے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ایک منتخب وزیراعظم کو ناکردہ گناہوں پر معافی مانگنے پر بھی معافی نہ دی تو پھر ان کی چھٹی کرا دی گئی۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ صادق آپے سے باہر ہوگئے کہ پارلیمان کی متفقہ طور پر منظور کردہ تیرہویں ترمیم کو ایک پسندیدہ بنچ بناکر معطل کردیا حکومت کی طرف سے فل کورٹ بنانے کے مطالبہ کو چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے رعونت سے مسترد کر دیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے جس طرح عدلیہ کی طاقت سے ملک پر حکمرانی کی کل کی بات ہے چیف جسٹس ثاقب نثار اور چیف جسٹس سعید کھوسہ نے بھی عوام کے منتخب نمائندوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا وہ پوری قوم کو یاد ہے ۔ اس کھیل کو ہمیشہ کے لئے ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن یہ کھیل ابھی تک ختم نہیں ہوا ۔آزاد جموں و کشمیر میں اس کھیل کا ریپلے دیکھا گیا ہے مسلم لیگی کارکنوں کی سپریم کورٹ میں ہنگامہ آرائی پر سردار نسیم ،اختر رسول اور طارق عزیز سمیت کچھ رہنماﺅں نے سزاتو بھگت لی لیکن جب عمران خان نے پیشی کے موقع پر عدالتوں میں ہنگامہ آرائی اور ہلڑ بازی کر کے جس طرح اپنی مرضی کے فیصلے کروائے ہیں۔ دور کی بات نہیں گزشتہ سال تصویر کو ووٹ کی قوت سے عمران حکومت ختم کرکے شہباز شریف کی حکومت برسراقتدار آئی تو عمران خان نے اس شدت سے اسے امپورٹڈ حکومت ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس کی بازگشت واشنگٹن کے ایوانوں تک سنی گئی۔ مجبوراًبائیڈن انتظامیہ کو وضاحت کرنا پڑی کہ ان کی حکومت کا عمران خان کی حکومت کے خاتمہ سے کچھ لینا دینا نہیں پھر عمران خان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے توپوں کا رخ اپنے محسن جنرل باجوہ کی طرف کر دیا۔پی ٹی آئی عمران حکومت ختم ہونے پر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نالاں تھی اب پی ٹی آئی نے 180 ڈگری کا یوٹرن لے لیا ہے جبکہ وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ نے سپریم کورٹ میں بینچوں کی تشکیل میں سینئر ججون کوبنچوں سے باہر رکھنے پر احتجاج کیا ہے ۔ پچھلے دنوں چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے جذبات پر قابو نہ پا تے ہوئے عدالت میں آبدیدہ ہوگئے اور سب کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنے ساتھی جج کے ساتھ کھڑے ہیں۔سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ موجودہ آئینی اور سیاسی بحران کا کون ذمہ دار ہے ؟ جسٹس شوکت صدیقی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں تاحال ان کے بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل کوئی فیصلہ نہیں کر پائی ۔ اگر سپریم کورٹ سیاسی و آئینی تنازعات پر مخصوص ججوں پر مشتمل بینچ بنانے کی بجائے فل کوٹ بناتی تو اس سے نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے کوئی انکار کر سکتا بلکہ اس کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ۔ جسٹس فائز عیسیٰ کو جس طرح تختہ مشق بنایا گیا اس وقت کسی جج کی آنکھوں میں آنسو نہیں آئے ۔جسٹس شوکت صدیقی کی اپیل تاحال انصاف کی منتظر ہے۔ آئین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو سوموٹو کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ کسی عدالت یا اتھارٹی کی طرف سے کوئی فریق کی درخواست کے بغیر کسی معاملہ کا ازخود نوٹس لینا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تو نواز شریف کے مخالفین کو بلا کر انصاف دینے کا پیغام دیا کرتے تھے پارلیمان اور سپریم کورٹ کے درمیان اختیارات کی جنگ کیا رخ اختیار کرتی ہے اس بات کا فیصلہ آئندہ چند دنوں میں ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri