پانچ فروری کا دن اس بار ایسے موقعہ پر آیا جب مودی کی انتہاپسند حکومت میں رام مندر کی تعمیر زور وشور سے جاری ہے، ادھر بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں رام مندرکی تعمیر مکمل نہیں ہوئی مگر 22 جنوری بروز سوموار اس کا افتتاح کردیا گیا، اس دن پورے بھارت میں جشن کا سماں رہا اور ہندو انتہاپسندوں مختلف تقریبات کا انعقاد کرتے رہے، قابل توجہ یہ ہے کہ رام مندر کی تعمیر عین اسی جگہ ہورہی ہے جہاں 1992 میں ہندو انتہاپسندوں نے تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا تھا، حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے رام جنم بھومی کے حق میں فیصلے کے بعد بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کیاجارہا ہے، رام مندر کے سلسلے میں ہونے والی افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم نریندرمودی کے ساتھ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے علاوہ درجن سے زائد لوگ شریک ہوئے، تقریب کی خاص بات یہ رہی کہ اسے مختلف ٹی وی چنیلز نے نہ صرف براہ راست دکھایا بلکہ اس پر بحث مباحثوں کا سلسلہ بھی جاری رہا، کئی ریاستوں کو براہ راست کوریج میں سہولت دینے کے لیے سرکاری طور پر چھٹی بھی دی گی،بھارتی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ پانچ فروری سے زرا قبل نریندر مودی کا نامکمل رام مندر کا افتتاح بھارتی مسلمانوں سمیت دنیا بھر کو یہ پیغام ہے کہ بھارت بتدریج کٹر ہندو ریاست بنے کی جانب بڑھ رہا ہے، اس صورت حال میں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں، یقینا بی جے پی سرکار کا پانچ اگست 2019 کا اقدام بھی انتہاپسند ہندو بیانیہ کو فروغ دینے کے لیے ہی تھا، بادی النظر میں عالمی اور علاقائی صورت حال بڑی حد تک بھارت کے حق میں ہے، مثلا امریکہ اعلانیہ طور پر بھارت کو جنوبی ایشیاءمیں اپنا اہم اتحادی گردانتا ہے بجینگ کی دشمنی میں واشنگٹن کو اس بات سے ہرگز کوئی سروکار نہیں کہ بی جے پی کے دور اقتدار میں اقلتیوں کی حالت زار کیا ہے، مغرب کے دیگر ملکوں کا معاملہ یہ ہےکہ وہ اپنے مفادات کو ہی اولیت دیتے ہیں،یوں کہا جاسکتا ہے کہ اہل مغرب کی حکومتیں تو خارجہ محاذ پر اخلاقی اصولوں کی زیادہ پرواہ نہیں کرتیں مگر مغربی عوام میں انسانیت کا جذبہ کسی طور پر مفقود نہیں، یقینا ہوں نہیں کہ اہل مغرب ادراک نہیں کہ بھارتی جمہوریت کا کون سا پہلو تاریک ترہے اس کے برعکس سچ یہ ہے کہ اہل بااثر علاقائی اور عالمی سطح پر خود کو تیزی سے منواتے چین سے خوف زدہ ہیں، بعض معلوم اور بعض نامعلوم وجوہات کی بنا مغرب کے اہم ممالک کو اس بات کا یقین دلا دیا گیا کہ اگر کوئی بجینگ کا مقابلہ کرسکتا ہے تو وہ نئی دہلی کے سوا کوئی اور نہیں، ادھر مقبوضہ کشمیر میں زمینی حقائق یہ ہیں کہ وہاںع عملا قبرستان کی سی خاموشی ہے، ان حالات کو مودی سرکار اپنی کامیابی قرار دیتی ہے مگر عملا ایسا نہیں،یقینا کشمیرمیں کسی نہ کسی شکل میں احتجاج جاری ہے، بھارتی دھونس اور جذبر کے باوجود حریت پسندوں کی کاروائیاں بھرپور انداز میں جاری وساری ہیں، یقینا مقبوضہ وادی میں آج بھی کشمیری بھارتی جبرواستحصال کا شکار ہیں، ایسا ممکن ہے کہ معقول تعداد میں کشمیری مسلح جدوجہد کے قائل نہ ہوں مگر دوسری جانب کشمیریوں کی اکثریت بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف ہے، قوموں کی تاریخ کا ہر طالب علم اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کرسکتا کہ جدوجہد آزادی میں کئی بار ایسے مراحل بھی آیا کرتے ہیں کہ گماں ہوتا ہے کہ تحریک دم توڈ چکی مگر پھر کچھ مدت بعد جدوجہد کے آثار دوبارہ ظاہر ہونا شروع ہوجایا کرتے ہیں،عوامی تحریکوں کی مثال چنگاری کی سی ہے جو وقتی طور پردم توڈ جاتی ہے مگر سلگتی ضرور رہتی ہے، یقینا مقبوضہ کشمیر کے باسی آج نہیں تو کل بھارت کے خلاف اپنے بھرپور جذبات کا اظہاردوبارہ کریں گے، بھارت میں رواں سال الیکشن ہونے جارہے ہیں یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ رام مندر کی تعمیر جیسے ہتکھنڈے استعمال کرکے مودی انتہاپسند ہندووں کو خوش کررہا ہے، بے جے پی کی پاکستان پر الزام تراشی کی وجہ بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسلام آباد ک مسلسل و دباو میں رکھا جاسکے، حال ہی میں مودی سرکار نے پاکستان سے حافظ سعید کی حوالگی کا مطالبہ کیا جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا،اب یہ راز سب ہی جان گے کہ نئی دہلی اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان پر الزام تراشی کی پالیسی پر گامزن ہیں، بی جےپی سرکار جانتی ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اقتصادی بحران کی زد میں ہے پاکستان مخالف قوتیں ہی ہمارے ہاں پاکستان مخالف چلانے میں مصروف ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر پاکستانی معیشت کےلئے مزید مسائل پیدا کرسکتے ہیں، پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ محدود وسائل کے باوجود کشمیریوں کی سیاسی اور اخلاقی جدوجہد کی حمایت میں پیش پیش ہے، مقبوضہ وادی میں ظلم وجبر کی رات کا خاتمہ کب ہوگا یہ کچھ کہنا مشکل ہے البتہ یہ یقین سے کہا جاسکتا کہ ہرتاریکی کے بعد صبح کا ظہور ہوا کرتا ہے یقینا کشمیر میں آج نہیں تو کل آزادی کا سورج ضرور نکلے گا۔