کالم

پاکستان کا روشن چہرہ۔کھرل زادہ کثرت رائے

کسی بھی قوم کی زندگی میں ملکی ہیروز کی بڑی اہمیت و حیثیت ہوتی ہے۔لوگ انہیں اپنے لئے بطور آئیڈیل دیکھتے ہیں۔ان کی زندگیوں سے بہت کچھ سیکھتے،سمجھتے ہیں۔ان کے کارناموں کو بہت زیادہ قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس سے بہت زیادہ خوشی اور فرحت محسوس کرتے ہیں۔بے شک کسی بھی ملک و قوم کےلئے ایسے ہیروز قابل فخر اثاثہ ہیں۔ یہ ہیروز ہی تو ہیں جن کے دم قدم سے یہ ملک چمکتا دمکتا اور نام پاتا ہے۔ملک عزیز پاکستان میں بے شمار ہیروز ایسے ہیں کہ جنہوں نے اپنے کام و کردار سے بڑا نام پایا،قوم کا سر فخر سے بلند کیا،پاکستان کو ایک نئی آن بان شان دی اور اس کےلیے وہ وہ کیا،جو رہتی دنیا تک تاریخ کے روشن اوراق پر ہمیشہ سراہا اور یاد رکھا جائے گا۔ ملک عزیز پاکستان کے انہی بے شمار ہیروز میں ایک چمکتا دھمکتا اور ابھرتا نام کھرل زادہ کثرت رائے کا بھی ہے جو اپنے کام و کردار کے حوالے سے ایک منفرد اور جداگانہ مقام حاصل کرتے جا رہے ہیں۔اپنے بہترین کاموں اور شاندار کارناموں کے سبب اقوام عالم میں پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں جو کہ ایک انتہائی سراہے جانے والا عمل ہے جس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔میں اس پاکستانی ہیرو،بین الاقوامی شہرت یافتہ واکر کھرل زادہ کثرت رائے کا تذکرہ کرنا اس لیے بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بنیادی انسانی حقوق کے لئے ہزاروں کلو میٹر پیدل چلنے والے اس عظیم ہیرو نے جرا¿ت اور بہادری کی ایسی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ جن کو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں ، خاک،خون،دھوئیں کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر امن کا پرچم بلند کرنا ہو یا گولیوں کی برسات میں اپنے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہو ، میدان جنگ میں جا کر اپنی فورسز کا مورال بلند کرنا ہو یا اپنی تاجر برادری کی ڈوبتی نا¶ کو سنبھالا دینا ہو،صحافت کی آزادی کا مسئلہ ہو یا پارلیمنٹ کی بالا دستی کا،بات کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کی ہو یا فلسطین کے معصوم بچوں کی، سندھ،پنجاب،بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے پر امن تصور کو اجاگر کرنا ہو یا سابق فاٹا کے حقوق کی تحریک کو جلا بخشنی ہو،سبز پاسپورٹ کی عزت کا معاملہ ہو یا اوورسیز پاکستانیوں کے مورال کو بلند کرنے کی ضرورت، معاملہ پاکستان کی بقاءکا ہو یا عالم اسلام کی سر بلندی کا، کھرل زادہ کثرت رائے کی بے مثال قربانیاں نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔کھرل زادہ کثرت رائے نے ہمیشہ اپنی قوم کے فیصلہ سازوں کو نئے نئے آئیڈیاز دیے ہیں۔کبھی عالمی امن کے تناظر میں،کبھی کشمیر پالیسی کے لیے،کبھی اسلامو فوبیا اور کبھی ہیومینٹی کے لیے،کبھی ٹریڈ اور کبھی ٹورازم انڈسٹریز کے لیے لیکن یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ پالیسی سازوں نے اس سے کتنا فائدہ اٹھایا ہے ہاں البتہ یہ پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جنونی شخص اپنی ہر طرح کی ذاتی منعفت سے کہیں بالاتر ہو کر صرف اور صرف پاکستان کےلئے وقف ہے۔کاش کہ ہمارے ارباب اختیار اس گوہر نایاب کی خدا داد صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم کی سمت کا ہی تعین کر لیتے۔کھرل زادہ کثرت رائے دنیا کا وہ واحد شخص ہے جس نے پیدل چلنے کو ہی اپنا چلن بناتے ہوئے ایسے ایسے کارنامے سر انجام دے ڈالے ہیں کہ شاید ہی کوئی دوسرا کبھی ان جیسا پیدا ہو سکے، تفصیل میں جانے کی بجائے صرف اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ کھرل زادہ کثرت رائے دنیا کا وہ واحد کردار ہے جس نے پیدل چلنے کو ایک Tool کے طور پر نا صرف متعارف کرایاہے بلکہ اس سے عملی طور پر بڑے بڑے کام بھی کر دکھائے ہیں۔کثرت رائے عصر حاضر میں برصغیر کا وہ پہلا کردار ہے جس نے کراچی تا مکہ سچ مچ پیدل چل کر حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور اقوام عالم کو بتایا کہ اسلام امن سلامتی،برداشت اور روا داری کا نام ہے ۔ کھرل زادہ کثرت رائے وہ پہلا عام پاکستانی ہے جس نے لائن آف کنٹرول چکوٹھی جا کر پاکستان کا جھنڈا لگایا،کھرل زادہ کثرت رائے ہی وہ واحد شخص ہے جس نے پہلی بار نیوزی لینڈ میں جا کر اسلامو فوبیا کے خلاف واک کے ذریعے ایک بھرپور تحریک چلا کر عالمی سطح پر اسلامو فوبیا جیسے اہم مسئلے کو اجاگر کیا۔کثرت رائے ہی وہ پہلا کردار ہے جس نے جاپان میں ہیروشیما تا ناگاساکی امن واک کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔کھرل زادہ ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے انگلینڈ جیسے ملک میں جا کر مانچسٹر تا لندن واک فار کشمیر کاز کر کے دنیا بھر کو اپنی توجہ مسئلہ کشمیر پر مرکوز کرنے کےلئے مجبور کر دیا اور پھر ان سب سے بڑھ کر کھرل زادہ کثرت رائے نے حال ہی میں فرانس سمیت اسلام مخالف سرگرمیوں کے گڑھ ان مغربی ممالک میں جا کر اپنی واک کے ذریعے اسلامو فوبیا کے خلاف ایک منظم اور بھرپور کمپین کی ہے جس کا کوئی عام پاکستانی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔بیلجیم کے شہر برسلز میں یورپین یونین پارلیمنٹ جا کر پورے عالم اسلام اور خصوصا¿ پاکستانی و کشمیری لوگوں کے جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے پیارے کریم آقا حضرت محمد ﷺ کی شان اقدس اور ناموس کے لیے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا اور کشمیر و فلسطین پر ڈٹ کر اپنا موقف پیش کرنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔کھرل زادہ کثرت رائے ہی وہ پہلا ایشین ہے جس نے جرمنی کے ثقافتی میلے میں بطور خاص شرکت کر کے پاکستان کا اصل مثبت چہرہ دنیا کو دکھایاہے۔کھرل زادہ کثرت رائے جس انداز سے پاکستان کی Image building اور Perception کو بہتر کر رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ہے یقینا یہ شخص کسی اور ملک کا شہری ہوتا تو آج ایک پرستائش زندگی گزار رہا ہوتا لیکن پاکستان کو شاید ایسے لوگوں کی ضرورت ہی نہیں ہے جو صرف پاکستان کا سوچتے ہوں۔چلتا پھرتا پاکستان کے نام سے پہچان رکھنے والے کھرل زادہ کثرت رائے کے کارناموں کی فہرست بھی ان کے نام کی طرح کافی طویل ہے لیکن افسوس کہ ایسے شخص کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہے اور نا ہی کوئی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ پاک فوج کا کردار ایسے لوگوں کےلئے ہمیشہ اچھا اور مثبت رہا ہے لیکن کھرل زادہ کثرت رائے آج تک پاک فوج کے ریڈار پہ بھی نہیں آ سکا ہے جس کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہوں اور وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف بھی ایسے لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر حوصلہ افزائی کرنے کے لیے خاصی شہرت رکھتے ہیں لیکن کھرل زادہ کثرت رائے ابھی تک ان کی آنکھ سے بھی اوجھل ہے جس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ کھرل زادہ کثرت رائے کا تعلق نا تو کسی سیاسی خاندان سے ہے اور نا ہی کسی بڑے گھرانے سے،شاید یہی وجہ ہے کہ سابق وفاقی وزیر سارہ افضل تارڑ اور سابق ایم این اے چوہدری شوکت علی بھٹی نے بھی اپنے اس ووٹر سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود اسے کبھی Encourage کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔اگر صحافی برادری،سول سوسائٹیز اور ٹریڈرز احسان فراموشی کا مظاہرہ نا کرتے اور کھرل زادہ کو تھوڑی عزت دیتے تو یقینا آج افواج پاکستان اور گورنمنٹ آف پاکستان کو بھی یہ محسن پاکستان،خیر خواہ پاکستان دکھائی دے رہا ہوتا اور یقینا گورنمنٹ آف پاکستان و دیگر تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے اپنے اس قومی ہیرو کےلئے تقاریب کا اہتمام کرتے دکھائی دیتے مگر ہم مردہ ضمیر اور مردہ پرست قوم کےلئے ایسے لوگوں کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں ہے۔شاید ہم کسی کے خاندانی مقام و مرتبہ اور ظاہری شان و شوکت دیکھ کر ہی اسے اہمیت و حیثیت دیتے ہیں ۔ کسی کا کام ہمارے لیے کوئی معانی ہی نہیں رکھتا ہے کیونکہ ہم من حیث القوم منافقت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں جن کی سوچ ذاتی مفادات سے آگے جاتی ہی نہیں ہے۔جن کو اجتماعی فوائد سے کوئی غرض نہیں اور نا ہی وطن عزیز سے کوئی سروکار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے