اداریہ کالم

پاکستان کی معیشت اورآئی ایم ایف کے مطالبات

idaria

پاکستانی معیشت آئی ایم ایف کے گردگھوم رہی ہے ، پاکستان کی طرف سے کے تمام تقاضے پورے کرنے کے باوجود اگرآئی ایم ایف نے پاکستان کوٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے تو پاکستان کو بھی اس سے دوٹوک بات کرتے ہوئے مزید مطالبات اورشرائط ماننے سے پیچھے ہٹ جاناچاہیے مگر افسوس ہے کہ ہمارے حکمران آئی ایم ایف کی ہربات ماننے پرمجبور نظرآرہے ہیں اوراسی کافائدہ اٹھاکرآئی ایم ایف انہیں تنگ کررہاہے ۔ حکمرانوں کواس بات کاادراک ہوناچاہیے کہ آئی ایم ایف سے لئے گئے اب تک کے قرض سے نہ معیشت بحال ہوسکی اورنہ ہی عوام کی حالت بہترہوپائی۔جب پاکستان آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرچکا ہے اور دوست ممالک کے تعاون کی بھی یقین دہانی کرادی گئی ہے اس کے باوجود آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ مزید مطالبات کررہاہے، حکومت عوامی ریلیف کاجوبھی فیصلہ کرتی ہے اس کی طرف سے مسترد کردیاجاتاہے۔گزشتہ روزآئی ایم ایف کے مشن چیف پاکستان ناتھن پورٹرنے کہا ہے کہ آئی ایم ایف حکام رواں پروگرام کے اس سال جون کے اختتام سے قبل بورڈ اجلاس کیلئے کوشش کر رہے ہیں ،کئی لوگوں کا موقف ہے کہ پروگرام ختم ہو گیا حالانکہ ابھی پروگرام کا ایک ماہ رہتا ہے، آئی ایم ایف سیاسی پیشرفت کا نوٹس لیتا ہے مگر ملکی سیاست پرتبصرہ نہیں کرتا۔آئی ایم ایف کے مشن چیف پاکستان ناتھن پورٹر نے اپنے بیان میں کہا کہ آئی ایم ایف حکام پاکستانی حکام سے رابطے میں ہیں، پاکستانی حکام سے بات چیت میں مالی سال 2024 کے بجٹ پر توجہ رکھی جائے گی ، پاکستانی حکام سے بات چیت زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور مارکیٹ کے آزادانہ چلنے سے متعلق ہے ، آئندہ مالی سال کا بجٹ آئی ایم ایف پروگرام اہداف کے مطابق ہو گا ، پروگرام اہداف اور مناسب فنانسنگ کے انتظامات بھی بات چیت کاحصہ ہیں جبکہ ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے اور سرکاری کمپنیوں کے نقصانات کو کم کرنا بہت اہم ہے،اس طرح کرنے سے حکومت کے پاس زیادہ مالی وسائل دستیاب ہوں گے ، پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کی موجودہ سیاسی پیش رفت سے آگاہ ہیں تاہم ہم مقامی سیاسی صورتحال پر رائے نہیں دیتے ،ہم امید کرتے ہیں کہ آئین اور قانون کے مطابق پرامن حل جلد تلاش کر لیا جائے گا ۔ پاکستان نے بالا آخر نئے بجٹ کی تمام تر تفصیلات آئی ایم ایف کو فراہم کردیں ۔ وزارت خزانہ حکام کا موقف ہے کہ حکومت کے کہنے پر تمام تفصیلات فراہم کی گئیں ۔معاہدے میں التواءکی ایک وجہ بین الااقومی اورپاکستان کی سیاسی صورتحال ہے، ایسے مطالبات پرعمل درآمد کی توقع کی جا رہی تھی جومذاکرات میں نہیں کیے جاتے ، مطالبات امریکہ کی طرف سے مختلف سطح پر ہونےوالی ملاقاتوں میں کیے جا رہے تھے جبکہ چین اورپاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات ، اعتماد کا فقدان معاہدہ نہ ہونے کی ایک وجہ ہے۔ نویں جائزے کے بعد پاکستان کو 1.2ارب ڈالر ملنے تھے جبکہ پاکستان کو پروگرام میں شیئر 2.6ارب ڈالر ملنا رہتا ہے،پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام جون کی تیس تاریخ کو ختم ہورہا ہے جبکہ آئی ایم ایف نے نویں جائزہ سے پہلے چھ ارب ڈالر کا انتظام کرنے کا کہا تھاجس پر پاکستان نے سعودی عرب اور یو اے ای سے تین ارب ڈالر کا گارنٹی دلوائی تھی۔ادھروزارت خزانہ نے ماہ اپریل کی آو¿ٹ لک رپورٹ جاری کر دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال2022-23 جولائی تا اپریل ترسیلات زر میں 13 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ۔ترسیلات زر کا حجم 22 اعشاریہ 7 ارب ڈالر رہا،گزشتہ مالی سال اسی عرصہ میں 26 اعشاریہ 1 ارب ڈالر تھی، رواں مالی سال جولائی تا اپریل برآمدات میں 13 اعشاریہ 6 فیصد کمی ہوئی، مجموعی حجم 23اعشاریہ 2 ارب ڈالر رہا،رواں مالی سال جولائی تا اپریل درآمدات میں 23 فیصد کمی ہوئی،حجم 45 اعشاریہ 2 ارب ڈالر رہیں ۔رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں جاری کھاتوں کے خسارہ میں 76 اعشاریہ ایک فیصد کمی ہوئی ۔جاری کھاتوں کے خساروں کا حجم 3اعشاریہ 3 ارب ڈالر ریکارڈ کیاگیا۔براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 23 اعشاریہ 2 فیصد کمی ہوئی ۔براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ایک ارب ایک کروڑ ڈالر رہیں۔ملک میں مہنگائی کی شرح 10 ماہ میں 28.2 ریکارڈ کی گئی۔دوسر ی جانب ایک تقریب سے خطاب میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہاکہ ہمیں بلیم گیم میں نہیں پڑنا ملک کو آگے لے کرجانا ہے،ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، مشکلات کو سامنے رکھ کر بجٹ تیار کریں گے ، کوشش ہے عوام دوست بجٹ بنائیں، ملکی معیشت کو بہترکرنے کیلئے دن رات کوشاں ہیں ۔ معیشت ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا، ملکی حالات سے سب آگاہ ہیں، ملک ڈیفالٹ ہونے کی خبریں پھیلانے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔جب وزیرخزانہ خود کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف ہویانہ ہو پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا توپھرایسی کیامجبوری ہے کہ اس کی نارواشرائط مان کر ملک وقوم کومزیدمشکلات میں مبتلا کیاجارہاہے۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس سے خلاصی کی کوئی ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے ورنہ جب تک پاکستان اس کے شکنجے میں رہے گا ملک وقوم کی ترقی کاخواب کبھی شرمندہ تعبیرنہیں ہوپائے گا۔
پاکستان اور بیلا روس کامختلف شعبوں میں تعاون پراتفاق
پاکستان اور بیلا روس نے مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پراتفاق کیاہے،دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو وسعت دینے کے معاہدے پر دستخط ہوگئے۔دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی پاسپورٹس کے حامل افراد کو ویزا سے استثنیٰ کا معاہدہ طے پاگیا،دونوں ملکوں کے اسٹرٹیجک سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے درمیان تعاون کے فروغ کا بھی معاہدہ ہوگیا۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان اور بیلا روس کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو فروغ دیا جا رہا ہے اور دونوں ممالک اپنے 30سالہ سفارتی تعلقات خوشی سے منا رہے ہیں،سفارتی پاسپورٹ کے حامل افراد کو ویزا سے استثنیٰ کے معاہدہ سے دونوں ممالک مستفید ہونگے جبکہ بیلا روس کے وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہتے ہیں، دو طرفہ معاہدوں سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا۔پاکستان اوربیلاروس ایک جامع اورباہمی طورپر فائدہ مند شراکت داری قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جو دونوں ممالک کے عوام کی خوشحالی اور فلاح وبہبود میں معاون ثابت ہوگی۔ پاکستان بیلاروس شراکت داری کے طویل مدتی اہداف میں اقتصادی تعلقات کااستحکام، تجارت اور کاروبار میں توسیع، سائنس کے شعبے میں تعاون کا فروغ، دفاعی تعاون اور ثقافتی تبادلوں اور عوامی روابط کوتوسیع دیناشامل ہیں۔ پاکستان اوربیلاروس کے درمیان تاریخی معاہدوں کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان سفراورتبادلوں میں سہولت فراہم ہوگی۔ پاکستان بیلاروس کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے استحکام اورتجارت کے فروغ کے لئے اعلیٰ سطح کے رابطے برقرار رکھنے کے لئے پُرعزم ہے۔
3 کروڑ سے زائد بچوں کا سکولوں سے باہر رہنا لمحہ فکریہ
وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ 3 کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں جبکہ صرف اسلام آباد میں 52 سے 54 ہزار کے قریب بچے سکول نہیں جا رہے سکولز سے بچوں کا باہر رہنا نہ صرف سنگین معاملہ ہے بلکہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔ ہم نے حکمت عملی تیار کی ہے کہ اس پر کام کریں ۔ صوبوں میں بچوں کی سکولوں سے باہر ہونے کی یہ تعداد زیادہ ہے اس کو کم کرنے کےلئے وقت درکار ہے فاصلاتی نظام تعلیم سے بچوں کی تعلیم کا نقصان کم ہوتا ہے ہم نے اس کے ذریعے ٹیلی سکولز بنائے ہیں اس سے پورا پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے، 45 ہزار بچے اس ایپ کے ذریعے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس نصاب سے متعلق کمیٹیاں بنا رہے ہیں وفاقی حکومت صوبوں کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔فاو¿نڈیشن لرننگ پہ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔یقینا یہ ایک بہت بڑالمحہ فکریہ ہے اس پرسنجیدگی کی ضرورت ہے تعلیم کا ملک وقوم کی ترقی میں اہم کردارہواکرتاہے جب ہم اپنے بچوں کوتعلیم نہیں دلوائیں گے توکبھی بھی ایک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے نہیں ہوسکتے۔لہٰذا حکمرانوں کو اس پرغوروفکرکرناچاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے