کالم

پاکستان ۔۔۔مشکل فیصلے

پاکستان ہمارے اجداد نے بہت سی جانی اور مالی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا اس وقت سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا شکار ہیے ۔ حزب اختلاف اور حکومت ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ پورے ملک میں مہنگائی کا گراف 48فیصد سے اوپر جاچکاہے جبکہ اس ریجن کے دیگر ممالک جیسے بھارت اور سری لنکا میں مہنگائی ہم سے بہت کم ہے۔ ٹیکس کولیکشن کے سالانہ ٹارگٹس پورے نہیں ہو پا رہے ملک کی جی ڈی پی دو فیصد کے قریب ہے۔ ایف بی آر نے ضروریات زندگی کے ہر آئٹم پر سیلز ٹیکس لگا کر عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے اس کی شرح بھی بہت بلند ہے۔حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے ضمنی ترمیمی بل دو ہزار تئیس میں پارلیمنٹ سے منظور کروا کر نافذ کیا جسے مڈ ٹرم بجٹ کا نام بھی دیا گیا اس میں ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی ہے لیکن حکومت کے سخت ترین فیصلوں کے باوجود مالیاتی فنڈ نے دوسری قسط جاری نہ کی۔ بجٹ سر پر آ چکاہے عوام بڑے ریلیف کےلئے حکومت کی طرف دیکھ رةے ہیں۔ دراصل حکومتیں بیوروکریسی اور ملک کے دیگر مراعات یافتہ طبقات کی غیر ضروری عیاشیوں پر کٹ لگانے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ کی دہائیوں سے اس ملک کو فیوڈل اور الیٹ کلاس لوٹ رہی ہے اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ دو ہزار اٹھارہ میں ملک بھر کے الیکٹیبلزکو جہانگیر ترین کے جہاز میں لاد کر عمران خان کی پارٹی میں شامل کیا گیا اور عمران خان وزیراعظم بن گئے انہوں نے ایک خاص انداز میں حکومت کی عوام کو ان سے بہت سی امیدیں تھیں وہ بار بار کرپشن اور منی لانڈرنگ کی بات کرتے تھے انہوں نے چین اور سعودی عرب کے طرز حکمرانی کی مثالیں دینی شروع کردیں ۔ عمران خان ہر تقریر میں یہ کہتے تھے کہ کس طرح چین نے کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالا۔ عمران خان نے نیب کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے مخالفین کو پکڑ پکڑ کر کرپشن کے الزامات میں جیلوں میں ڈالا لیکن الزام ثابت نہ ہونے پر انہیں رہا کرنا پڑا۔ حزب اختلاف کو مکمل طور پر دیوار سے لگا دیا گیا۔ حزب اختلاف کی تیرہ پارٹیاں اکٹھی ہوگئیں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر انہیں حکومت سے نکال دیا گیا اس وقت سے عمران سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے۔ وہ ہر الزام جنرل باجوہ پر لگا رہے ہیں اور کہتے ہیں میں بے اختیار وزیراعظم تھا اپنے مقاصد کے حصول کےلئے ق لیگ کے پرویز الٰہی کو ساتھ ملا کر پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تڑوائی گئیں اس لیے کہ جب مرکز میں انتخابات ہوں تو پنجاب اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہوں اور انتخابات میں حکومتی مشینری استعمال کرتے ہوئے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کے جا سکیں۔ اتحادی حکومت صوبوں اور مرکز میں ایک ساتھ انتخابات چاہتی ہے اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جس نے چودہ مئی کو الیکشن کروانے کی تاریخ دی اور حکومت کو الیکشن کےلئے اکیس ارب جاری کرنے کےلئے کہا حکومت نے پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کر دیا اور اکیس ارب روپے الیکشن کمیشن کو جاری نہ ہو سکے ۔ عدالت کے سخت ریماکس سامنے آئے اور وزیراعظم شہباز شریف کے گھر جانے کی باتیں ہونے لگیں۔ عمران خان کو نیب نے القادر ٹرسٹ کیس میں کرفتار کیا نو مئی کو پی ٹی آئی کے فالورز باہر نکلے انہوں نے جلاﺅ گھیراﺅ شروع کر دیا اہم سرکاری اور فوجی عمارتوں (جناح ہاﺅس کور کمانڈر ہاوس اور پشاور ریڈیو اسٹیشن) کو جلایا گیا حکومت کی طرف سی پکڑ دھکڑ جاری ہے عوم کے اندر بھی بہت غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ کور کمانڈرز کانفرنس اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دہشتگردوں کےخلاف ملٹری کورٹس میں مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب آرمی ایکٹ لاگو ہو گا ملٹری کورٹس میں مقدمات چلیں گے۔ جلاﺅگھیراﺅ کے الزام میں حکومت گرفتاریاں کر رہی ہے۔ دوسری طرف عدالتیں ضمانتیں دے رہی ہیں۔ اب تو لاہور ہائی کورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان کا نوٹیفیکیشن منسوخ کر دیا اور انہیں دوبارہ اسپیکر کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث پی ٹی آئی ورکرز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا ان پر مقدمات سول عدالتوں میں چلیں گے۔ حکومتی اتحادیوں اور مولانا فضل الرحمن نے سپریم کورٹ کے سامنے عدلیہ مخالف دھرنا دیا عدلیہ کے خلاف تقاریر بھی کی گیں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروا کر لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے یہی احتجاج کا صحیح طریقہ ہے ۔ مغربی ممالک میں بھی حکومت سے کوئی مطالبہ منوانا ہو تو پلے کارڈ اٹھا کر احتجاج کرتے ہیں اور منتشر ہو جاتے ہیں۔ نہ نعرے لگاتے ہیں نہ توڑ پھوڑ ہوتی ہے۔اب صورت حال یہ ہے کہ عمران خان نے جلاﺅ گھیراﺅ کے واقعات کی ہلکی سی مذمت کی ہے انہیں کھل کر 9مئی کے واقعات کی مذمت کرنی چاہیے۔ زمان پاک میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق ایک بار پھر متحرک ہیں وہ اب بھی سیاسی قوتوں کے درمیان مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ صدر عارف علوی پی ٹی آئی کےلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں عمران خان کو 9 مئی کے واقعات کی مذمت پر زور دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی سے ممبران کا انخلا بڑی تیزی کے ساتھ شروع ہو چکا ہے کیونکہ کوی بھی فوج سے محاذ آرائی نہیں چاہتا۔ پاکستانی عوام کی پاک فوج کے ساتھ جذباتی وابستگی ہیے لوگ فوج کے حق میں جلوس نکال کر پاک فوج سے یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں دیکھا یہ گیا ہیے کہ ملک پر جب بھی کوی مشکل آتی ہیے جیسے زلزلہ سیلاب قدرتی آفات تو فوج خود ان سے نپٹنے کےلئے سب سے آگے ہوتی ہیے مغربی طاقتیں اب عمران خان کے حق میں اٹھ کھڑی ہیں عمران خان نے جلسوں میں سیفر لہرا کر اپنی حکومت کی تبدیلی کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہریا تھا اس کے باوجود ساٹھ امریکی سینٹروں نے عمران خان کے حق میں خط لکھا ہے کہ پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ادھر افغان نزاد زلمے خلیل ذاد جو امریکی مفادات کےلئے کام کرتا ہے نے بھی عمران کی حمایت میں بیان دیا ہے۔ فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد پی ٹی آئی کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ اس کی قیادت اس دہشتگردی کی مذمت کرے اور حملہ کرنے والوں کو پارٹی سے نکال دے ۔ابھی وقت ہے کہ ذاتی انا کو چھوڑ کر مذاکرات کی طرف آئیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا بھی یہی مشورہ دیا ہے لیکن حملہ آوروں کو فوجی عدالتوں کے زریعے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے ۔ ایک سال سے ملک سیاسی افرتفری اور عدم استحکام کا شکار ہے معیشت قابو میں نہیں آ رہی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کرکے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے اب حکومت ٹرانسپورٹروں کو بسوں اور ویگنوں کے کرائے کم کرنے پر مجبور کرے۔ عرصہ دراز سے روسی پٹرول کی باتیں ہو رہی تھیں اب خبر ہے کہ روسی تیل پاکستان پہنچ چکا ہیے اس کا حقیقی فائدہ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ عوام تک پہنچنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ حکومت اسے پھر پٹرولیم لیوی بڑھا دے اورعوام کے ہاتھوں کچھ بھی نہ آئے۔ بجٹ کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ بجٹ کا خاکہ تیار کیا جا رہا ہے ۔ تاجروں کی تنظیموں اور معاشرے کے دیگر طبقات کی طرف سے بجٹ تجاویز پیش کی جارہی ہیں ہر طبقہ ریلیف کےلئے بجٹ پر نظریں لگائے بیٹھا ہے۔ تنخواہ دار سرکاری ملازمین اور پنشنرز بہت سی امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ ہوشربا مہنگائی کو مد نظر رکھتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں کم از کم 50فیصد اضافہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کرنا چاہیے۔ پاکستان انتہای مشکل صورت حال کا شکارہے تمام اسٹیک ہولذرز کو مل کر اس کا حل نکالنا ہوگا اور کچھ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے