نگران وزیر اعظم پاکستان انوارالحق کاکڑ نے پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں پائے جانے والی ان شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کی تردید کی ہے کہ جس کے حوالے سے عمومی طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان کے ہر کام میں امریکی مداخلت ہورہی ہے اور کام خواہ اچھا ہو یا برا ہو وہ امریکا کے سر پر تھوپ دیا جاتا ہے جیسا کہ جب عمران خان کے اقتدار کے آخری دن تھے اور ان کا اقتدار سے رخصت ہونا ٹھہر چکا تھا تو انہوں نے با آواز بلند امریکا پر الزامات عائد کرنا شروع کردیئے کہ وہ ان کی حکومت ختم کرنا چاہتا ہے اور ایک سازش کے تحت ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جارہی ہے ، وہ ابھی تک اپنے اس موقف پر قائم چلے آرہے ہیں کہ ان کی حکومت کا بوریا بسترا امریکا نے گول کیا حالانکہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں ، اس حوالے سے دفتر خارجہ وضاحت کرچکا ہے ، اسی حوالے سے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ہارورڈ یونیوسٹی کے طلبہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، ضروری نہیں کہ امریکا جو بھی کہے یا کرے ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں، کئی معاملات میں دونوں ممالک کے درمیان عدم اتفاق پایا جاتا ہے۔پاکستان کا امریکا کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلق ہے، ملکوں کے درمیان مختلف امور پر اتفاق اور اختلاف بھی رہتا ہے لیکن ہم منفی توانائیوں پر یقین نہیں رکھتے، ہم امریکا کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری چاہتے ہیں۔میں اپنی ٹیم کو کہتا رہتا ہوں کہ ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ ہماری نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے، یہ مسئلہ صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے تمام ممالک کے وجود کے لئے خطرہ بنتا جارہا ہے لیکن موسمیاتی تباہ کاریوں کا سب سے زیادہ نشانہ پاکستان بنا ہے۔ میرے ادھورے سے بیان کا کچھ حصہ کاٹ کر ٹرولنگ کی گئی اور مجھے 48 گھنٹے سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کا سامنا کر نا پڑا ، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ وسائل اور اخراجات میں توازن نہ ہونا ہے،آئندہ سالوں میں معاشی حالات بہتر ہوں گے۔اچھے مواقع کی تلاش میں ملک سے باہر جانا کوئی انہونی بات نہیں،ضروری ہے ہمارے نوجوان جہاں بھی جائیں کامیاب ہوں، پاکستانی عوام میں موجودہ بحرانوں پر قابو پانے کی مکمل صلاحیت ہے،پاکستان میں جمہوری عمل تسلسل سے جاری ہے اور جمہوریت ہی پارلیمنٹ کی مضبوطی کی ضامن ہے۔ریاست اور عوام کے درمیان ایسے سماجی معاہدے پر یقین رکھتے ہیں جہاں حقوق کا تحفظ ہو،مجھے نہیں معلوم آئی ایم ایف کو ایک دشمن کے طور پر کیوں پیش کیا جاتا ہے۔ گزشتہ 200 برس میں امریکہ نے زبردست ترقی کی،دیگر ممالک امریکہ کی ترقی سے سیکھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی نوجوان پاکستان چھوڑ کر امریکا اور یورپ میں آباد ہونےکا فیصلہ کرتا ہے تو یہ مثبت چیز ہے، ا س رجحان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔ اگر پاکستان دس سال تک روس کے خلاف نہ لڑتا تو آج 30 ہزار ارب ڈالرکی سرمایہ دارانہ معیشت نہ ہوتی۔ عالمی معیشت اور استحکام میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے، اگر پاکستان دس سال تک روس کے خلاف نہ لڑتا تو آج 30 ہزار ارب ڈالرکی سرمایہ دارانہ معیشت نہ ہوتی۔ کسی حکومت کی مدت کی عدم تکمیل غیر جمہوری نہیں، گزشتہ 15 سال میں 3 منتخب پارلیمان نے اپنی مدت مکمل کی، جمہوریت میں حکومت پارلیمنٹ اور آئین کے ذریعے ہی تبدیل ہوتی ہے۔امریکا پاکستان کا ایک پرانا حلیف ہے جس کے ساتھ پاکستان کے نہایت دوستانہ اور برادرانہ تعلقات چلے آرہے ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کے مابین تبادلہ بھی ہوتا چلا آرہا ہے ، نوجوان پاکستانی طالبعلموں کو ہر سال یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت امریکن یونیورسٹیوں میں سکالر شپ دیئے جاتے ہیں اور انہیں جدید ریسرچ کے مواقع مہیا کئے جاتے ہیں ، 80کی دہائی میں جب سویت یونین نے بھارت کو جدید ترین جنگی لڑاکا طیارے فراہم کیے تو ایسے میں امریکا نے پاکستان کو ایف سولہ جیسے جنگی لڑاکا طیارے فراہم کیے جو جدید ترین سہولیات سے مزئین ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ امریکا نے پاکستان کے خلائی پروگرام اور اٹامک انرجی پروگرام کی بھی بھرپور طریقے سے مدد کی ہے ، اس کے علاوہ پاکستان کے تینوں مسلح افواج کے افسروں کو جنگی تربیت بھی فراہم کرتا چلا آرہا ہے، ہمارے مشرق میں جو ہمسایہ ملک ہے وہ روز اول سے پاکستان کے خلاف ہے اور اس کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کردیا جائے مگر یہ پاکستانی حکام کی اعلیٰ حکمت عملی اور اعلیٰ خارجہ پالیسی ہے کہ وہ اپنے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو دن بدن مزید خوشگوار بناتا چلا آرہا ہے ،اسی مشرقی ہمسایے کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ وہ ہمیں امریکا ، چین ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک سے دور کرے مگر الحمد اللہ یہ ممالک ہمیشہ سے مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ، چنانچہ ان لمحات میں وزیر اعظم کی جانب سے یہ کہنا یہ سچائی ہے جسے قوم کو آگاہ ہونا چاہیے کہ امریکا ہو یا کوئی اور ملک ہو اس کے ساتھ مساوی سطح پر دوستی کے رشتے ناطے قائم ہیں مگر ان ممالک کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت کبھی بھی کسی حکومت نے نہیں دی ، 1979میں جب سویت یونین نے افغانستان کے اندر اپنی افواج اتاریں اور اس کا اگلا لائحہ عمل پاکستان ، ایران ،متحدہ عرب امارات کو ہڑپ کرنا اور گرم پانیوں تک پہنچنا تھا تو ایسے عالم میں پاکستانی افواج نے سویت یونین کے خلاف مزاہمت کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر اس کے سامنے ڈٹ گئیں وہ لمحہ پاکستان کیلئے بے سر وسامانی کا تھا کہ ایک طرف مشرق میں بھارت جیسا مکار دشمن تھا تو مغرب میں سویت افواج نے پڑاو¿ ڈال دیا تھا ، اس عالم میں امریکا ہی تھا جس نے نہ صرف خود بلکہ پوری دنیا کو اس بات پر قائل کیا کہ ان نازک لمحات میں پاکستان کی بھر پور مدد کی جانا چاہیے ، اسے جدید ترین اسلحہ اور ساز و سامان دیا جانا چاہیے اور اس کی مالی مدد بھی کی جانی چاہیے ، چنانچہ پاکستان نے گوریلا جنگ کے حکمت عملی اپنا تے ہوئے سویت یونین کو افغانستان میں شکست فاش دی اور پھر تاریخ نے یہ منظر پہلی بار دیکھا کہ سویت افواج قبضہ کرنے کی نیت کسی ملک میں داخل ہو اور پھر انہیں الٹے پاو¿ں واپس لوٹنا پڑا ، اس نازک لمحے میں امریکا نے پاکستان کی جو بھر پور طور پر مدد کی اسے پاکستانی قوم نہیں بھولے گی اور ہمیشہ یاد رکھے گی مگر کچھ عناصر پاکستان میں ایسے ہیں جو اندرون خانہ پاک امریکا تعلقات کو پروپیگنڈے کی زد میں لاتے ہیں یہ بہتر تعلقات خراب بنانے کے چکر میں رہتے ہیں مگر وزیر اعظم نے ان تمام تاثرات کی نفی کردی ہے
بجلی کے بھاری بلوں کیخلاف احتجاج شروع
کہا جاتا ہے کہ کسی ملک میں مہنگائی سے تنگ آئے عوام بادشاہ کے محل سامنے اکھٹے ہوگئے اور مظاہرہ کرنے لگے تو ملکہ نے ایک وزیر کو بلاکر پوچھا کہ یہ لوگ کیوں احتجاج کررہے ہیں جس پر وزیر نے جواب دیا کہ یہ لوگ بھوک سے تنگ آکر اور روٹی نہ ملنے پر احتجاج کررہے ہیں تو اس پر ملکہ نے ایک ادا کے ساتھ کہا کہ یہ لوگ ڈبل روٹی کیوں نہیں کھا لیتے ، کچھ یہی حال ہمارے حکمرانوں کا بھی ہو چکا ہے کہ وہ غریب عوام کے جسم میں موجود خون کے آخری قطرے تک نچوڑ لینا چاہتے ہیں ، اس وقت بجلی کے بلوں میں ہونے والے ناروا اضافے نے عوام کو گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہے کیونکہ حکومت غریب عوام کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کیلئے بجلی کے بل پر عجیب و غریب ٹیکس لگانے میں مصروف ہے ، اس پر بجلی کے بلوں میں اضافے پر شہریوں کا صبر جواب دے گیا اور ملک کے مختلف شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئی،راولپنڈی، ملتان، گوجرانوالا اور پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے گئے جن میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ شہریوں نے احتجاجا بل جلائے اور دھرنا دیا،راولپنڈی میں مظاہرین کمیٹی چوک پر جمع ہوئے اور حکومت سے بجلی پر ٹیکسز ختم کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ گوجرانوالا میں گیپکو آفس کا گھیراﺅ کیا گیا۔ کراچی میں بجلی کے نرخوں میں اضافے پر جماعت اسلامی اور تاجروں نے کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے بجلی کے بل جلادیے، نگراں حکومت اور واپڈا کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ بجلی کے بلوں میں اضافے اور ٹیکسز نے ہماری مشکلات بڑھادیں، بجلی کے بلوں کو ادا کرنے کے لیے گھریلو سامان فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ادھر نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بجلی کے بلوں کے حوالے سے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے عوام مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔
اداریہ
کالم
پاک امریکا تعلقات پر نگران وزیر اعظم کا موقف
- by web desk
- اگست 28, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 785 Views
- 1 سال ago