دہشت گردی کے عنوان سے جو عالم گیر پروگنڈہ مہم چلائی جارہی ہے یہ در اصل جنگ زرگری ہے جو اس خطہ میں اس عالمی سامراج کو اپنے پنجے گاڑنے کا موقع فراہم کرنا ہے اور جن عناصر نے دہشت گردی کا راستہ اپنایا ہے ان کا رہبر اور رہنماءبھی یہ عالمی غنڈہ ہے جس نے سرد جنگ کے دوران ان کو پالا ۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نو آبادیاتی اور اس کے بعد کا جدید نوآبادیاتی دور جس جسے گلوبلائزیشن کا دور بھی کہا جاتا ہے اس کا بانی مبانی یہ عالمی غنڈہ ہے ان ادوارمیں دین اس اسلام کو بدنام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ، دین کو بحق سامراج کے قلعے مضبوطط بنانے کیلئے کی بھر پور کوشش کی گئی اور بھر پور طور پر ڈالر کا استعمال کیا گیا اور وسیع پیمانے پر لٹریچر لکھا گیا اور بڑے خون بہا اور پچاس لاکھ پشونوں کے خون بہانے کے بعد ان عناصر کو دہشت گرد قرار دیدیا گیا جو کل ان کے حریف تھے اور اب دہشت گری کے خلاف جنگ کی ایک نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔مبینہ سرد جنگ کے دور کے ختم ہونے کے بعد کا نقشہ سب کے سامنے ہے ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان آگے کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کی معیشت مضبوط ہو رہی ہے اور ہم زوال پزیر ہیں۔ ایک طاقت نے عالمی غنڈے کی حیثیت حاصل کر لی ہے اور د نیا اس کی غنڈہ گردی کے سامنے بے بس اور تماشائی ہے یہ زر پرست عالمی طاقت دنیا کے مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی اور اور جمہوریت کی آڑ میں عدم استحکام پیدا کر کے بڑے ڈھٹائی کے ساتھ وہاں کے وسائل پر اپنے خون آشام پنجے گاڑھنے میں مصروف ہے حالانکہ اس عالمی غنڈے کی جمہوریت نوازی اور انسان دوستی سے اس کے کرتوتوں کے باعث پوری دنیا واقف ہوگئی ہے اور اس حقیقت سے سب واقف ہوگئے ہیں کہ دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذمہ دار یہ عالمی غنڈہ ہے وہ جہاں بھی جاتا ہے انسانیت کے ساتھ وحشت کا سلوک کرتا ہے دنیا کیلئے یہ اب کوئی یہ ڈھکی چھپی خبر نہیں ہے اور اس وحشت نے اسے بزدل بھی بنادیا ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں کا صدر اپنے مشہور عقوبت خانے میں قیدیوں پر روا رکھے جانے والے مظالم پر مبنی تصاویر کی ااشاعت کو اپنے نظام کیلئے خطرہ تصور کرتا ہے اور علی الاعلان اس پر پابندی لگاتا ہے ۔رہی بات اس کی جمہوریت کی تو یہ محض سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کھیل ہے اور تمام دعوے کھوکھلے ہیں یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ جہاں اس کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں وہاں اسے بادشاھت بھی قبول ہے اور جہاں اسکے مفاد کو زک پہنچے تو شفاف انتخابات کے نتیجے میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والا صدر انہیں قابل قبول نہیںلاطینی ملک وینزویلا اور ایران اس کی ایک مثالیں ہیں جسے یہ سامراج کبھی بھی قبول نہیں کرتا ہے۔آج ملک دہشت گری کا شکار ہے جو ہر حساس انسان کیلئے باعث تویش ہے اور وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ کونسے عوامل ہیں جن کے باعث دہشت گردوں کے ہاتھ یرغمال بنے ہوئے ہیں یہاں تک کہ عالمی زرگر اور سرمایہ دارانہ نظام کا قائد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اپنے آپ کو بطور قائد پیش کرتا ہے دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد ہر طبقہ اور فرقوں کے علماءبھی اس کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں اور قومی اور عالمی سطح پر بین امذاہب کانفرنسوں کا انعقاد بھی ہوتا ہے لیکن پھر بھی یہ سوالیہ نشان ہنوز موجود ہے کہ دہشت گردوں کا سرپرست کون ہے اور دہشت گردی کا ذمہ دار کس کو ٹھرایا جائے؟ تاریخ ایک آئینہ ہے جس کے تناظر میں حال کی تدبیر اور مستقبل کیلئے لائحہ عمل تشکیل دیا جاسکتا ہے دیکھا جائے تو دہشت گردی نے یورپ اور امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کے کوکھ سے جنم لیا ہے اور عالمی زرگر ہی ان دہشت گردوں کو لوریاں سنا کر ان کی پرورش اور تربیت کرتے رہے ہیں انہوںنے مذہبی منافرت اور تضادات کو ابھارااور اشتراکیت کے خلاف جنگ میں مذہب کو سرمایہ دارانہ نظام کے بقا کیلئے استعمال کیا گیاجنگ اور جنگ کا ماحول پیدا کر کے تشدد کا راستہ اپنایا گیا اور اس کو مقدس عنوان دیا گیااپنے مﺅقف کو دلیل کی بجائے بندوق کی گولی اور خنجر کی نوک پر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی کا شاخسانہ ہے کہ دہشت گرد عناصر اسلحہ کو مسلمانوں کا زیور قرار دیتے ہیں ۔ہند وپاک کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ خطہ عظیم روایات کا حامل رہا ہے اور صدیوں تک یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اکٹھے رہے ہیں رواداری پر مبنی روایات کو یہاںکے صوفیاءاور حکمرانوں نے آگے بڑھایا جس کے بنیاد پر صدیوں اس خطہ میں حکومت کی گئی لیکن آج سرمایہ پرست موت کے عالمی سوداگر مذہب کو دہشت گردی سے آلودہ کر رہے ہیں جنازوں پر خودکش دہماکے، مردوں کو قبر سے نکال کر پھانسی پرلٹکانا اور مقدس مقامات کی بے حرمتی کیا معنی رکھتی ہے ؟جدید اسلحہ سے لیس ہوکر عوام کا ناطقہ بند کیا گیا اور میں نہ مانوں کی پالیسی اپنائی گئی تو آخر ایک ملک کے اندر دو ریاستیں قائم رہ سکتی ہیں ؟ عالمی میڈیا کا لب ولہجہ معنی خیز ہے ۔آخر ان دہشت گردوں کے پاس اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟ ان کے تانے بانے کس سے جڑے ہوئے ہیں؟ جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ان لوگوں کو کیوں ٹریس نہیں کیا جا سکتا ہے؟۔سچی بات یہ ہے کہ یہ زرگری کی جنگ ہے اور سرمایہ کے سوداگر سیاہ جھوٹ کو سفید بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور اسلحہ تقسیم کر کے اس خطہ کو عدم استحکام کی طرف لے جانے کی کوششوںمیں مصروف ہیں ۔آخر یہ دہشت گرد اتنے طاقت ور کیسے ہوگئے؟ اور ان کے پاس جدید اسلحہ کہاں سے آیا کہ وہ دنیا کی مانی ہوئی ایک منظم فوج سے آمادہ بہ جنگ ہیں ؟لیکن زرگری کی یہ جنگ کامیاب نہیں ہوگی اور عالمی سامراج اور اس کے پروردہ دعناصر کی شکست یقینی ہے کیونکہ اب ہوا کا رخ بدل چکا ہے قوم کو اپنی عسکری قیادت پر اعتماد ہے اس جنگ کا نتیجہ عوام کے حق میں نکلے گا اور سامراج اور اس کے ایجنٹوں کا قلع قمع ہوگا کیونکہ دنیا کے چند آلہ کار قیادتوں کے علاوہ دنیا کی اکثریت عالمی زر پرست کی عیاری جان چکی ہے اور اس کی مکاری سب پر واضح ہوچکی ہے !!!۔