حلقہ احباب سردار خان نیازی

پر ویز مشرف کیس ۔۔۔۔ چند اہم ترین حقائق

پر ویز مشرف کیس کا فیصلہ آنے والا ہے۔ فیصلہ تو اب جو بھی ہو گا عدالت ہی کرے گی تاہم اس کیس کی کچھ باتیں بڑی دلچسپ ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں علم ہونا چاہیے تا کہ ہم سیاق و سباق سے واقف ہو کر اس معاملے کو سمجھ سکیں۔آج کے اس ‘ حلقہ احباب ‘ میں ہم انہی پہلوئوں پر بات کریں گے۔
1۔ پہلا اہم پہلو یہ ہے کہ یہ کیس تین نومبر کی ایمر جنسی کا ہے ۔اور اس میں بارہ اکتوبر کے اقدام کا کوئی ذکر نہیں۔ چنانچہ اکثر لوگ یہ بات سوچتے ہیں کہ پر ویز مشرف کے خلاف مقدمہ قائم ہونا تھا تو اس کی بنیاد تین اکتوبر کو کیوں بنایا گیا ، اسے بارہ اکتوبر کی بنیاد پر کیوں نہیں قائم کیا گیا۔میرا کوئی تعلق نہ تو پرویز مشرف سے ہے اور نہ اس وقت کی مقدمہ تیار کرنے والی حکومت سے ہے۔
منتخب حکومت تو بارہ اکتوبر کو گھر بھیجی گئی تھی۔ نواز شریف اسی روز گرفتار ہوئے تھے۔ مقدمہ اسی روز کے اقدام کی بنیاد پر قائم کیوں نہیں کیا گیا۔ اس سوال کا جواب وفاق ہی دے سکتا ہے اور اسی کو دینا ہو گا کیونکہ یہ سوال بہت اہم ہے۔
2۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 6 کا مقدمہ کب سے شروع کرنا ہے کیا اس بارے میں حکومت مکمل طور پر بااختیار ہے کہ جب سے چاہے مقدمہ بنا دے یا آئین نے اس معاملے میںکچھ اصول طے کر رکھا ہے؟ ہائی ٹریزن کا مقدمہ قائم کرنے کا اختیار تو صرف وفاقی حکومت کو ہے ۔نہ کوئی اور آدمی یا کوئی صوبائی حکومت یہ کام کر سکتی ہے اور نہ ہی اس میں سو موٹو ہو سکتا ہے لیکن کیا یہ اختیار بھی حکومت کو ہے کہ جب سے چاہے مقدمہ بنا دے؟ یعنی کیا حکومت اس بات کی مجاز ہے کہ بارہ اکتوبر کو چھوڑ دے اور تین نومبر کی بنیاد پر کارروائی کر لے؟
3۔ تیسرا اور اہم ترین پہلو یہ ہے کہ حکومت کو اس بات کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ آئین کے آرٹیکل بارہ کی کلاز دو میں لکھا ہے کہ جب بھی کسی کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ قائم ہو گا تو اس مقدمے کی شروعات 23 مارچ 1956 سے ہوں گی۔ یہ آئینی قدغن اور آئینی پابندی ہے۔ اس آرٹیکل کے ہوتے ہوئے کیا باقی سب کچھ چھوڑ کر تین نومبر کی بنیاد پر مقدمہ قائم ہو سکتا ہے؟یہ اب ایک سوال ہے۔ اورجیسے کہ میں نے شروع میں لکھا اس کے قانونی پہلو تو عدالت ہی دیکھے گی اور فیصلہ کرے گی لیکن سیاست کے طالب علم وفاقی حکومت کے اس مقدمے قائم کرنے کے فیصلے کو سیاسیات کے زاویہ سے دیکھتے ہیں تو ان کے لیے اس سوال سے پہلو تہی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
4۔ چوتھا اور اہم ترین پہلو یہ ہے کہ کیا حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آرٹیکل چھ کا مقدمہ قائم کرتے ہوئے آرٹیکل چھ کی ذیلی دفعہ دو کی خلاف ورزی کا ارتکاب کر دے؟ آرٹیکل چھ کے تحت کسی نے اگر آئین شکنی کی ہے تو آرٹیکل چھ کی کلاز دو یہ وضاحت کر دیتی ہے کہ وہ اکیلا مجرم نہیں ہو گا بلکہ وہ سب مجرم تصور ہوں گے جنہوں نے اس کام میں اس کے ساتھ شراکت کی یا اسے اس کی ترغیب دی یا اسے اس کام کے لیے اکسایا یا اسے اس کام میں معاونت فراہم کی۔ اب ایک ایمر جنسی لگتی ہے ۔ ایک وزیر قانون ہوتا ہے جو اس ایمرجنسی کا ڈرافٹ تیار کرتا ہے۔ یہ اب کتنی عجیب سی صورت حال بن جاتی ہے کہ ایمر جنسی کے وقت جو وزیر قانون تھا اسے تو اپنی کابینہ میں شامل کر لیا گیا اور ایک پر ویز مشرف کے خلاف کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ آرٹیکل چھ کی کلاز دو کو پامال کر کے آرٹیکل چھ کی کلاز ون پر عمل کرنا کیا آئین کی بالادستی کہلا سکتا ہے؟ میں نے پہلے عرض کی ہے اس معاملے کا قانونی جائزہ تو فاضل عدالت ہی لے گی لیکن سیاست کے طالب علموں کے لیے یہ سوال بڑا اہم ہے کہ اس وقت وفاقی حکومت کا مقصد آئین کی سربلندی تھا یا اپنا انتقام لینا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب یہ کیس عدالت میں گیا تو وہاں سوال اٹھاا کہ زاہد حامد اور شوکت عزیز کو بھی شامل کیا جائے تو زاہد حامد نے وفاقی کابینہ سے استعفی دے دیا تھا۔ اب سیاسیات کے حوالے سے اس سوال کی اہمیت سے کیسے صرف نظر کیا جا سکتا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف تو آپ مقدمہ قائم کر رہے ہیں لیکن ان کے وزیر قانون زاہد حامد کو آپ نے اپنی کابینہ میں شامل کر رکھا ہے۔یہ معاملہ چونکہ ہماری سیاست کا ایک اہم باب بھی ہے اس لیے اس کے حوالے سے اٹھنے والے سیاسی سوالات پر بات ہو رہی ہے ۔ جہاں تک معاملے کے قانونی پہلو کا تعلق ہے تو اس کا فیصلہ عدالت نے ہی کر نا ہے۔دیکھتے ہیں کیا فیصلہ آتا ہے۔

]]>

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri