پنجاب ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور سینٹر فار پیس اینڈ سیکولر اسٹڈیز کے باہم اشتراک و تعاون سے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں سوک ایجوکیشن کے موضوع پر دو روزہ وائس چانسلرز کانفرنس منعقد کی گئی ۔ پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور اس کے نہایت نیک مقاصد کے بارے میں تو سب جانتے ہیں۔اس کانفرنس میں پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کےساتھ اشتراک و تعاون کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عامتہ الناس کی بہتری کے لیے کام کرنے کی دعویدار ہے۔ اس غیر سرکاری تنظیم کے نزدیک امن صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام شہری بلا لحاظ مذہب، جنس اور نسل ریاست کی نظروں میں یکساں حقوقِ رکھتے ہوں۔ یہ این جی او غربت، عدم مساوات، ناخواندگی، عدم برداشت اور لالچ کو ، نیز جنگ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات کا خاتمہ کرنا اپنا مقصد قرار دیتی ہے ۔اس این جی او کے مطابق تمام شہریوں کےلئے مساوی حقوق، ذمہ داریاں اور مواقع ہی ایک پرامن معاشرے کی ضمانت ہو سکتے ہیں،اور یہ سب کچھ ایک سیکولر ریاست کے بغیر ممکن نہیں۔ یقینی طور پر پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے زعما کو اس این جی او کے مقاصد خاص طور پر ایک سیکولر ریاست کی تشکیل کے ساتھ دلچسپی محسوس ہوئی ہو گی ۔میرے خیال میں پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے یہ اقدام ایک اچھی خبر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کانفرنس کا افتتاح وزیر اعلی پنجاب کے مشیر برائے قانون وپارلیمانی امور کنورمحمد دلشاد نے کیا۔ پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر اس دو روزہ کانفرنس کے شریک میزبان کے طور پر پنجاب کی30 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور دیگر مہمانوں کے ساتھ کانفرنس کے اغراض و مقاصد سے متصل موضوعات پر مکالمے کو منظم کرتے رہے ۔ ایسی کانفرنسوں کا سب سے زیادہ فائدہ کیٹرنگ کرنے والوں اور ہوٹل والوں کو ہوتا ہے۔تاہم کچھ ذیلی اور بعض جزوی فوائد کانفرنس کے منتظمین اور شرکا بھی حاصل کر لیتے ہیں۔اس کانفرنس کے بعدپنجاب ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد منیر کی طرف سے 24نکات پر مشتمل ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔یہ اعلامیہ پنجاب کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کےلئے ایک طرح کا بہشتی زیورسمجھنا چاہیئے ،یعنی یونیورسٹیوں کے لیے ایک ایسی دستاویز ، جس پر عمل کرنے سے دنیا کےساتھ ساتھ آخرت بھی سنور سکتی ہے۔یا پھر اس اعلامیے کوجدید ہدایت نامہ مسلمان خاوندکی طرح خیال کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ہدایت نامے عموما متوقع اور نادان شوہر تجسس کے مارے خرید تو لیتے ہیں ، لیکن شادی کے بعد انہیں پڑھنے کی نوبت کبھی نہیں آتی ۔یاد رہے کہ یونیورسٹیاں تعلیم و تحقیق کے آزاد اور روشن فکر مراکز ہوا کرتی ہیں ۔علم و تحقیق کی ڈگری دینے کے علاہ ایک یونیورسٹی کا سب سے بڑا اور اساسی مقصد اپنے طالب علموں کو سارے امتیازات سے بلند ہو کر صرف انسان بن کر سوچنے ،سمجھنے اور عمل کرنے کی تربیت دینا ہوتا ہے ۔یونیورسٹیاں اپنے طالب علموں کے ذہن پر چھائے ہر قسم کے جالے صاف کرتی اور انہیں کھلی ،روشن اور بے تعصب فضا میں علم و دانش کی تحصیل سے آگے بڑھ کر علم تخلیق کرنے کے قابل بناتی ہیں ۔ یونیورسٹیوں کو خود مختار ادارے بنایا جاتا ہے،ہر یونیورسٹی تخلیق علم و دانش ، تحقیق اور ہمہ قسم تعصبات سے ماورا ماحول کے ذریعے اپنی خودمختاری کی حدود میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔یہی خود مختاری کسی بھی یونیورسٹی کی پہچان بنتی ہے۔لیکن پاکستان میں اعلی تعلیم کے میدان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے نام سے ایک المیہ ظہور پذیر ہوا تھا ،اس کمیشن نے پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں کو فرقہ ورانہ مدرسوں میں تبدیل کرنے اور تعلیم و تحقیق کی فضا کو کچلنے کےلئے اپنی سفارشات، اپنے نام نہاد قواعد اور اپنے بے بنیاد اختیارات کو بے دریغ استعمال کیا۔اس سب کی تفصیل اس ملک میں اعلی تعلیم و تحقیق کی تباہی کی عبرت ناک داستان ہے۔اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد جب تعلیم صوبائی چیپٹر قرار پایا تو پھر صوبوں نے اپنے اپنے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بنا لیے۔کام ان کا بھی وہی تھا یعنی یونیورسٹیوں کو تنگ نظری ، ذہنی غلامی اور پسماندگی سے دوچار رکھنا۔اور اس بات کو یقینی بنانا کہ کسی بھی یونیورسٹی سے علم و شعور کی کوئی ایک کرن بھی جنم نہ لے سکے ۔ اس بات کو یقینی بنانے کےلئے بنیادی بات کسی بھی یونیورسٹی میں غیرموزوں ذہنی حالت یا کم صلاحیت شخص کو وائس چانسلر بنانا ہوتا ہے۔باقی کے سارے کام وہ وائس چانسلر خود کر لیتا ہے۔ایک بات یقینی ہے کہ ایسے وائس چانسلروں کے ذاتی مالی اثاثے چار سالہ ٹینیور مکمل کرنے تک زمین سے اٹھ کر آسمان تک پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ایک این جی اوسینٹر فار پیس اینڈ سیکولر اسٹڈیزکے اشتراک و تعاون سے منعقد ہونے والی دو دوزہ کانفرنس کے چوبیس نکاتی اعلامیے کے چھ نکات تو ایسے ہیں ،جن کا سیکولرازم سے تو دور کی بات ہے ایک عمومی فراست سے بھی کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر شاہد منیر کے جاری کردہ اعلامیے کا آٹھویں نکتے کے مطابق اقلیتی طلبہ وطالبات کو محفوظ اور پرامن ماحول فراہم کیا جائے گا۔ایک مہذب ملک میں کسی شہری کو اقلیت قرار دینا ذہنی دیوالیہ پن کی نشانی ہوا کرتا ہے۔اسی طرح کسی یونیورسٹی میں سارے طالب علم یکساں مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ بھلا کسی یونیورسٹی کا کوئی طالب علم اقلیت سے تعلق رکھنے والا اسکالر کیونکر ہو سکتا ہے ؟ گویا پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین نے دو روزہ کانفرنس میں ایک این جی او سے سیکولرزم سیکھ کر اسے پنجاب کی یونیورسٹیوں میں رائج کرنے کا کام شروع کردیا ہے ۔ ایک ریاست کے نزدیک اسکے سارے شہری بلاامتیاز مذہب، رنگ ،نسل ،علاقہ اور زبان کے ،یکساں حقوق و فرائض کے حامل شہری ہوتے ہیں۔اگر پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں اکثریت اور اقلیت کے پیمانوں کو برقرار رکھنے پر اصرار کرے گا تو پھر پنجاب میں اعلی تعلیم کے اداروں سے کسی بہتری کی توقع کرنا سعی لا حاصل ہے۔اسی طرح اعلامیے کی شق اکیس کہتی ہے کہ سماجی اخلاقیات اور انسان کی عزت نفس کی حفاظت کو یقینی بنانے کےلئے اسلامی تعلیمات کو اجاگر کیا جائے گا ۔ گویا یونیورسٹی کے اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کو اب بھی اسلامی تعلیمات کو اجاگر کرنے کی طرف متوجہ رہنا ہو گا ۔؟ سماجی اخلاقیات اور انسان کی عزت نفس کی حفاظت ہر مہذب معاشرے کی مشترکہ اقدار کا حصہ ہیں۔ان کا کسی ایک مذہب یا دوسرے یا تیسرے مذہب کے ساتھ نہیں ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کا طالب علموں کو مذہبی حوالوں سے شناخت کرنا گمراہ کن آئیڈیا ہے۔اعلامیے کی شق چوبیس نے پورے اعلامیے کا خلاصہ بیان کردیا ہے ۔جس کے مطابق پنجاب کی یونیورسٹیوں میں اسلام ، وطن عزیز ، ریاست پاکستان اور اسکے اداروں کے احترام کا شعور اجاگر کیا جائے گا”بات یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں آنے والے طالب علم اتنے باشعور ہو چکے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے مذہب، اپنے ملک اور اس کی اقدار سے مکمل آگاہی حاصل ہو چکی ہو ۔یہ ساری باتیں بنیادی طور پر پرائمری ایجوکیشن سے تعلق رکھتی ہیں۔ہاں اس اعلامیے میں ریاست پاکستان اور اس کے اداروں کے احترام کے شعور کواجاگرکرنےوالی بات ناقابل فہم ہے۔اس اعلامیے کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ پنجاب میں یونیورسٹیوں کو آزاد علمی ماحول میسر نہیں آ سکے گا۔یونیورسٹیوں میں علم اور تحقیق کی فضا اور ماحول کسی بھی قسم کے نظریاتی دباو¿ کے بغیر جنم لیتا ہے ۔ ملک میں کوئی بھی ادارہ اپنا احترام اور وقار اپنی اچھی اور مبنی بر آئین و قانون کاکردگی کی بنا پر حاصل کر سکتا ہے ۔اس بوجھ کو اعلی تعلیم کا حصہ نہ بنائیں۔