کالم

پھرشائدہم کبھی بھی ترقی نہ کرسکیں

اسمبلیاں ٹوٹیں گی اسمبلیاں نہیں ٹوٹیں گی۔عدم اعتماد آئے گی عدم اعتماد ناکام ہوگی کا مہنگا ترین ڈرامہ بلکہ بھوک افلاس بیروزگاری مہنگائی کے سیلابوں میں ڈوبی قوم کیساتھ گھناو¿نا مذاق کئی ہفتے چلنے کے بعد آخرکارختم ہو گیا۔وہ جو پہلے سرعام بیان کرتے تھے کہ عمران خان اور پرویزالٰہی اسمبلیاں توڑنے کی محض دھمکیاں دیتے ہیں۔ جونہی انہوں نے اسمبلیاں توڑیں ہم نوے دن میں ضمنی انتخابات کرادیں گے کہنے والے اب اپنے موقف سے ہٹ کر یہ اعلان کرنے میں مصروف ہیں کہ وہ ہمیں اقتدار سے نکالنے آئے تھے لیکن اسمبلیاں توڑ کر سیاسی خودکشی کر کے اب فارغ ہوگئے ہیں ۔ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پرہونگے۔ ملک سیلاب کی زد میں ہے ۔ خزانہ خالی ہے اسلئے انتخابات کا انتظار کریں والے بیان دے کر خوش ہو رہے ہیں اوراب نگران سیٹ اپ والا ڈرامہ چلنا شروع ہو گیا ۔ برسراقتدار طبقہ کا خیال ہے کہ آئین اور قانون میں کوئی ایسی راہ نکالیں کہ لمبے عرصہ تک کےلئے نگران سیٹ اپ لے آئیں۔اس دوران ایک طرف عمران خان کی مقبولیت کو ختم کر سکیں اوردوسری طرف اپنی ناقص کارکردگی سے عوامی توجہ ہٹاکرایک مرتبہ پھرسے صاف ستھرے ہو کر عوام میں پھرسے ووٹ لینے پہنچ جائیں۔ رنگ و رغن کرنے کے تو یہ ماہر ہیں۔پچھلی کئی دہائیوں سے اقتدار میں رہنے کے بعد انہیں کئی طریقے یادہیں۔یہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ میں اپنی راہیں اور رشتے مضبوط بناتے ہیں اور اس قدرنوازتے ہیں کہ بندے ان کےلئے جان پر کھیلنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور جب اقتدار سے باہر ہو جائیں تولندن انکا دوسرا وطن بن جاتا ہے ۔ وہیں انکے کاروبار اولادیں جائیدادیں اورسب کچھ ہروقت موجود رہتا ہے۔وہیں پر بیٹھ کر یہ مستقبل کی پلانگ کرتے ہیں اور وہیں بیٹھ کر سیاسی فیصلے اورمنصوبے بناتے ہیں اور جب حالات ٹھیک نظر آئیں توبڑی شان سے وطن عزیزمیں آجاتے ہیں۔ آجکل ایک مرتبہ پھرنگران سیٹ اپ کا ڈرامہ چل رہا ہے نوے دن کےلئے نگران حکومت آئے گی یا پھر طویل دورانئے کا نگران سیٹ اپ آئے گا۔وثوق سے اس بارے کچھ کہا نہیں جاسکتا اسلئے کہ ملکی سیاست اپنی نوعیت کی واحدسیاست ہے کہ جس میں جسکی لاٹھی اسکی بھینس والے سنہری اصول پر عمل درآمد ہوتاہے۔رہی بات آئین اور قانون کی تو یہ پڑھی لکھی ذمہ دار قوموں کےلئے ہوتا ہے۔ ہم جیسی قوموں کے لئے تودھونس دھاندلی پولیس انتظامہ پٹواری اورطاقت ہی اصول ہوتاہے جسے ہم بھگت رہے ہیں اورنجانے مزید کب تک بھگتیں گے۔ بہرحال اسمبلیاں ٹوٹیں نہ ٹوٹیں نگران حکومت یانگران سیٹ اپ آئے نہ آئے والے اس مہنگے ترین ڈرامے میں عوام رل گئے ہیں۔بہت سی وڈیوز میری طرح آپ نے بھی دیکھی ہونگی کہ جن میں غریب عوام سرکاری سستے آٹے کے تھیلے کیلئے ٹرکوں کے سامنے شدید سردی میں صبح سویرے لائنیں لگا کر کھڑی ہوتی ہے اورشام کو تھیلامل گیا تو خوش ورنہ اس آٹے کے تھیلے کےلئے کتنے لوگ جان کی بازی ہار گئے ہیں ۔ بتایاجاتاہے کہ ہم گندم پیدا کرنے والے ممالک کی عالمی درجہ بندی میں تیسرے نمبرپرہیں اگرچوتھے پانچویں نمبرپربھی ہوتے توبھی اندرون ملک گندم کی قلت نہیں ہونا تھی لیکن کیا کریں ان سیاسی مگرمچھوںپہ کہ جو سرکاری گندم کے گوداموں سے ہرسال اربوں روپے کی گندم کھانے کے بعد بھی نیک پاک بنے رہتے ہیں اور عام آدمی سے اپنے مگرمچھوں کیلئے ووٹ لینے بھی انتہائی ڈھٹائی سے پہنچ جاتے اورکیا کریں اس عام آدمی کا کہ وہ یہ سارے زخم سارے دکھ برداشت کرنے کے بعد پھر انہیں ہی ووٹ دیکراگلے چارپانچ سالوں کیلئے خودپر مسلط کرکے پھراللہ سے دعائیں مانگنے میں لگ جاتے ہیں ہمیں حضرت عمرفاروقؓ جیسا حکمران عطاکر۔ایک صحافی ہونے کے ناطے عوام اورسماج سے میرا گہراتعلق رہتا ہے ۔ہمارے حکمرانوں اورسیاست دانوں اور انکو لانے اور نکالنے والے پس پردہ ہاتھوں کی غلطیوں کی وجہ سے عوام ساٹھ سالوں کی سب سے بڑی مہنگائی سے گزر رہی ہے اورایک محتاط اندازے کے مطابق پندرہ کروڑلوگ اپنی سفیدپوشی سے نیچے گر کرغربت کی دلدل میں چھلانگ لگا چکے ہیں۔لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ جنہیں عام آدمی کی زندگی بہتربنانے کی زمہ داریاں ڈالی گئیں ہیں وہ باپ پارٹی کوپیپلزپارٹی میں ضم کرنے ایم کیو ایم کے دھڑوں کویکجاکرنے پنجاب میں پیپلزپارٹی کورنگ وروغن کر کے تیارکرنے عمران خان کومائنس کرنے تحریک انصاف کے پیٹ سے ایک اورتحریک انصاف نکالنے اور موروثی سیاست کی دوسری نسل کو پرموٹ کرکے آگے لانے اورطویل دورانیے کے نگران سیٹ اپ کے نئے تجربے کرنے میں مصروف ہیں۔قیامت کی بات ہے کہ ڈیڑھ کڑوڑکے ڈالے پر چار گن مینوں کیسا تھااسسٹنٹ کمشنرجیسا سترویں گریڈکا افیسر پیازلہسن ٹماٹرمرچوں کے ریٹ چیک کرتے نکلتا ہے اوراٹھارہویں انیسویں گریڈکا ہیڈ ماسٹربچارہ سائیکل پر جا رہا ہوتا ہے۔ڈپٹی کمشنرپانچ چار گاڑیوں کے جھرمٹ میں موقع چیک کرنے نکلتا ہے اورایس ایس پی رینک کے ڈسٹرکٹ پولیس افیسر کو دفتر سے باہر نکلنے کے لئے بھی تین چار گاڑیوں والے مخافظوں کی ضرورت پڑتی ہے۔یاریہ جنوبی وزیرستان یاکسی سرحدی علاقے میں تعینات تو نہیں جہاں انہیں جان کا خطرہ ہوبس ایک پروٹوکول ہے جس نے پورے سسٹم کا بیڑہ غرق کر رکھا ہے۔کل فیصل بادشاہ نے لندن سے ایک وڈیو کلپ بھیجا جس میں فرانس کے صدرسرکاری دورے پرسویڈن گئے جہاں ائرپورٹ سے بائیسائیکلوں پرصدرہاو¿س پہنچے نہ کوئی محافظ نہ گارڈ۔امیرترین ممالک کے حکمران اگر سائیکل پرسفرکرتے ہیں لندن کے ٹونی بلیراوربورس جانسن سائیکل پرشاپنگ کر سکتے ہیں توپھرہم جیسے قرضوں میں ڈوبے مختاج بھکاری حکمرانوں اوربیوروکریٹس کے پروٹوکول اخرکیوں ہیں ۔اسکا جواب شائدکسی کے پاس نہیں لیکن اگرغورکیاجائے تویہی ہماری تباہی وبربادی کا سبب ہیں۔کب کوئی ایسا حکمران آئے گاجو ان عیاشیوں پر قابو پائے گااور کب ان عیاشیوں پرخرچ ہونے والی رقم غریب عوام پرخرچ ہوگی ۔ آپ بجلی بچت کےلئے رات دس بجے مارکٹیں بندکراتے ہیں لیکن سرکاری دفاتر اور حکمرانوں کے محلوں اورایوانوں میں بجلی کی بچت کا کبھی سوچتے بھی نہیں ساری قربانیاں صرف عوام نے دینی ہیں اورساری عیاشیاں اگراشرافیہ نے کرنی ہیں تو پھرہم شائدکبھی بھی ترقی نہ کرسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri