کالم

پیٹ کی بھٹی کاایندھن تلاش کرتے ہوئے

نگران حکومت آنے کے فورابعدایک شو رہے ایک غوغا ہے۔وسیع پیمانے پربیورو کریسی میں تبادلوں کا رولا ہے۔ اوپر سے پکڑدھکڑ کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ فواد چوہدری کے بعدلاہورسے بھی ایک آدھ گرفتاری کی اطلاع ہے۔یہ صورت حال دیکھ کر سینہ گزٹ والوں نے بھی افواہیں پھیلانی شروع کر دی ہیں کہ ایک جماعت کے سربراہ سے لے کرپورے صوبے تک میں کارکنوں کی فہرستیں تیار ہو رہی ہیں پرچے ہوں گے جیلیں بھری جائیں گی اور پتہ نہیں کیا ہو گا۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اور کسی کا امتحان ہو نہ ہومحسن نقوی کا امتحان ضرور شروع ہو گیا ہے۔ایک ٹیلنٹیڈشخص میرے مرشدبادشاہ سلطان باھو کے شہر کے سید گھرانے میں پیدا ہو کر لاہورجیسے علمی ادبی ثقافتی مرکزمیں لڑکپن گزارنے اورگورنمنٹ کالج لاہور جیسے اعلی ترین ادارہ سے تعلیم حاصل کرکے امریکہ جیسے ملک میں پڑھنے اور پھرعالمی شہرت کے نشریاتی ادارے میں اپنے صلاحیتوں کے جوہر دیکھاتے ہوئے پاکستان میں صحافت کی دنیا میں کامیابی کیساتھ چھ نشریاتی ادارے اور ایک اخبار چلاتے ہوئے نگران وزیراعلی تک پہنچنے والے شخص سے مجھے بطور صحافی اوروکیل بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔
گزشتہ کالم میں بھی انڈین فلم ایک دن کا وزیراعلی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ گو فلم ڈرامہ کالم کہانی ناول لفظوں کا کھیل ہوتا ہے مگر لکھنے والے کسی نہ کسی سے متاثرہو کر وہ سب کچھ لکھتے ہیں البتہ یہ درست ہے کہ حقیقت سے ان کا زیادہ تعلق نہیں ہوتا مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ ہوتا ضرور ہے محسن نقوی کے ہوں یاان پر اعتماد کرنے والے پس پردہ ہاتھ ایک بات تو محسن نقوی کے بس میں ضرور ہے کہ وہ اپنے مختصر دور میں اگر یہ شہید جنرل ضیاالحق والے نوے دن نہ ہوئے تو بھی محسن کو بطورصحافی ایک کام ضرور کرنا ہوگا کہ وہ بیورو کریسی کو گندا ہونے سے بچائیں گے بیورو کریٹ ایک طرح ہمارے معاشرے اور نظام کی کریم ہوتے ہیں۔یہ اپنی سوچوں سے اپنے علم اور عقل سے شعبوں میں پالیسیاں بنانے نظام چلانے کیلئے محنت کرتے ہیں لیکن دہائیوں پر محیط ہمارا آلودہ سیاسی نظام ماضی میں انہیں اپنی طرف کھینچ کر جانبدار بناتا رہا ہے اوراب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ جونہی کوئی حکومت بدلتی ہے آنے والا حکمران اپنی پسند کے افسروں کو آگے لانے اورناپسندیدہ کو کھڈے لائن لگاتے لگاتے اس مقام پہنچ چکا ہے کہ بیورو کریسی بدنام کردی گئی ہے اور ان فیصلوں کی توقع ختم ہوتی جارہی ہے جو ایک افسراپنے علم تجربہ اورقابلیت سے کرکے ملک وقوم کے لئے بہتری لاسکے اور اسی وجہ سے ہمارا قومی ترقی کا عمل سست ہوچکا ہے محسن بنیادی طور پر صحافی ہیں اوروہ اس صورتحال کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں انہیں اس پسند اور ناپسند کے ناپسنددہ عمل سے ہٹ کر ان افسروں سے کام لینا چاہئے انہیں اعتماد دینا چاہئے کہ وہ آئین اورقانون کے مطابق فیصلے کرنے میں آزادبھی ہیں اور ذمہ دار بھی دوسرا اہم کام محسن کو کرنا ہوگا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن کو اسکی سیاسی وابستگی کی وجہ سے انتقامی عمل سے نہ گزرنا پڑے اور کسی افیسر کو یہ ترغیب بھی نہ دی جائے کہ وہ مخالفین کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بناکرنگرانوں کا امیج خراب کرسکیں اورمذید ایک کام کہ انکے دور میں صوبہ بھر میں کسی صحافی کو اس کے فرائض کی ادائیگی میں انتقام سے نہ گذرنا پڑے اور اہم بات یہ بھی کہ صوبہ میں امن و امان کی صورتحال پرکوئی کمپرومائز نہ ہوجبکہ اشیائے خوردونوش باآسانی حکامتی نرخوں پر اور ملاوٹ سے پاک دستیاب ہوں۔
گوجرانوالہ اوروزیرآبادکے اضلاع میں چوکھر زدہ سرکاری آٹا کیمیکل ملا دودھ پانی زدہ گوشت مافیازکونکیل ڈالنے کیلئے متعلقہ ضلعی افسران کی کھنچائی کریں تو کمال ہو جائے بظاہر تو یہ معمولی سی باتیں ہیں لیکن اسی میں اچھی حکومت کا راز پنہاں ہے۔گو کہ محسن کی تعیناتی کیخلاف عدالت سے رجوع کیا جا چکا ہے جہاں ان پر زرداری کا بچہ اور فرنٹ مین اور جانبدار جیسے الزامات کے علاوہ نیب سے پلی بارگین جیسے الزامات کو رکھا جائے گا لیکن محسن کو صحافت سے نگران تک آنے میں انکی خداداد صلاحیتوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جتنے دن بھی انہیں نصیب ہوں انہیں ہمیشہ یہ یاد رکھ کرحکومتی امور انجام دینا ہونگے کہ انہیں دوبارہ صحافت میں ہی آنا ہے یہی انکا اصل کام ہے اور واپسی پر انہیں اطمنان ہونا چاہئے کہ انکے طویل یا مختصر دور کو مورخ سنہری حروف سے لکھے اورجب بھی ان کا ذکر ہو وہ تاریخ کے صفحات میں مسکراتے ہوئے نظر آئیں ۔یہاں تک تو نگران وزیراعلیٰ سے گزارشات ہیںلیکن ایک گزارش وزیراعظم سے بھی ہے کہ وہ نہ اپنے کپڑے بیچیں اورنہ اپنی جان بس اپنے اور کابینہ پروٹوکول اور سرکاری ضیافتوں اور کھابوں پر پابندی کابینہ کے حجم میں کمی اور اشرفیہ اور پارلیمنٹرین کے مراعات کا خاتمہ ڈالر کی رفتار کو کنٹرول کرلیں اوربندرگاہوں سے لیکر فیکٹریوں تک اور دوکانوں سے لیکر چھابڑیوں تک میں حالات کے جبرپر غور کرکے ایسے اقدامات کردیں کہ عام آدمی کو اور کچھ نہیں بس دووقت کی روٹی انکی جیب پر بوجھ نظر نہ آئے اور اسے پیٹ کی بھٹی کا ایندھن تلاش کرتے ہوئے خودکشی اور خودسوزی میں عافیت نظر نہ آئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے