کالم

پی آئی اے کی نجکاری: ایک فیصلہ، کئی سوال

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی نجکاری کا حالیہ فیصلہ محض ایک انتظامی یا مالی اقدام نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی و معاشی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک پہلے ہی معاشی دباؤ، سیاسی تقسیم، ادارہ جاتی کمزوری اور عوامی بے اعتمادی کا شکار ہے۔ قومی ایئرلائن کی 75 فیصد شیئرز کی نجکاری اور معروف کاروباری شخصیت عارف حبیب کے کنسورشیم کی جانب سے کامیاب بولی نے ایک بار پھر یہ بنیادی سوال زندہ کر دیا ہے کہ آیا پاکستان واقعی ریاستی اداروں کی اصلاح کی طرف بڑھ رہا ہے یا محض مالی بوجھ سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ معاملہ صرف ایک ادارے کا نہیں بلکہ ریاست اور منڈی کے تعلق، پبلک سروس کے تصور اور معاشی خودمختاری جیسے بڑے سوالات سے جڑا ہوا ہے۔ اسی لیے پی آئی اے کی نجکاری کو محض ایک بزنس ڈیل کے بجائے ایک قومی پالیسی فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
قومی فخر سے مالی بوجھ تک: پی آئی اے کا تاریخی سفرپی آئی اے کا قیام 1955 میں اس وژن کے تحت عمل میں آیا تھا کہ پاکستان خطے میں ایک جدید اور باوقار قومی ایئرلائن کے طور پر ابھرے۔ ابتدائی دہائیوں میں پی آئی اے نہ صرف منافع بخش رہی بلکہ تکنیکی اور انتظامی اعتبار سے بھی ایک رول ماڈل سمجھی جاتی تھی۔ 1960 اور 70 کی دہائی میں پی آئی اے نے کئی بین الاقوامی روٹس پر برتری حاصل کی، جدید طیارے شامل کیے اور تربیت یافتہ عملے کے ذریعے عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کیا۔یہی وہ دور تھا جب مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا کی کئی ایئرلائنز نے پی آئی اے کے ماڈل سے استفادہ کیا۔ ایمریٹس اور سنگاپور ایئرلائن جیسے اداروں کے ابتدائی مشاورتی مراحل میں پی آئی اے کے ماہرین کا کردار تاریخ کا حصہ ہے۔ تاہم یہ کامیابی کا سفر مستقل نہ رہ سکا۔
1980 کی دہائی کے بعد پی آئی اے میں سیاسی مداخلت نے جڑ پکڑ لی۔ حکومتیں اس ادارے کو سیاسی وفاداریاں نبھانے،غیر ضروری بھرتیوں اور من پسند تقرریوں کیلئے استعمال کرتی رہیں۔ پیشہ ورانہ مینجمنٹ کی جگہ بیوروکریسی اور سیاسی اثر و رسوخ نے لے لی۔ نتیجتاً ادارہ آہستہ آہستہ مالی خسارے، انتظامی ابتری اور عالمی مسابقت سے باہر ہوتا چلا گیا۔اوپن اسکائی پالیسی اور مسابقت کا دباؤ:1990 کی دہائی میں پاکستان نے اوپن اسکائی پالیسی متعارف کروائی، جس کا مقصد مسابقت بڑھانا اور مسافروں کو بہتر سہولت فراہم کرنا تھا۔ تاہم اس پالیسی کے نفاذ میں توازن برقرار نہ رکھا جا سکا۔ نجی اور غیر ملکی ایئرلائنز کو تو کھلی آزادی دی گئی، مگر پی آئی اے کو اندرونی اصلاحات، فلیٹ کی جدید کاری اور مالی خودمختاری نہ مل سکی۔اس غیر متوازن مسابقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی آئی اے کے مسافر کم ہوتے گئے، آمدن میں کمی آئی اور اخراجات بڑھتے چلے گئے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا اور ادارہ مسلسل حکومتی بیل آٹس پر انحصار کرنے لگا، جس نے قومی خزانے پر دباؤ مزید بڑھا دیا۔معاشی بحران اور نجکاری کا ناگزیر راستہ:گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان شدید معاشی بحران کی لپیٹ میں رہا۔ بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ، بیرونی قرضوں کا دبا، مہنگائی اور زرِ مبادلہ کے کم ہوتے ذخائر نے ریاست کو سخت فیصلے کرنے پر مجبور کیا۔ آئی ایم ایف کے پروگراموں میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی اصلاح یا نجکاری کی جائے۔پی آئی اے ان اداروں میں سرفہرست تھی جو ہر سال اربوں روپے کے خسارے کا باعث بن رہی تھی۔ حکومتی مقف یہ رہا کہ اگر پی آئی اے کو اسی ڈھانچے کے تحت چلایا جاتا رہا تو نہ صرف اس کی حالت مزید خراب ہوگی بلکہ ریاست کی مالی گنجائش بھی متاثر ہوتی رہے گی۔ اسی پس منظر میں نجکاری کو آخری اور ناگزیر حل کے طور پر پیش کیا گیا۔
نجکاری کا عمل: بولی، شفافیت اور مقابلہ،پی آئی اے کی نجکاری کیلئے حکومت نے مرحلہ وار حکمتِ عملی اختیار کی۔ پہلے ادارے کی ری اسٹرکچرنگ کی گئی، قرضوں کو الگ کیا گیا اور پھر سرمایہ کاروں کو دعوت دی گئی۔ دسمبر میں اسلام آباد میں ہونے والی نیلامی کو حکومتی سطح پر شفاف اور تاریخی قرار دیا گیا۔اس عمل میں تین بڑے کنسورشیمز نے حصہ لیا: کی سیمنٹ کی قیادت میں ایک گروپ، ایئر بلیو، اور عارف حبیب گروپ۔ سخت مقابلے کے بعد عارف حبیب کی قیادت میں کنسورشیم نے 135 ارب روپے کی سب سے بڑی بولی دیکر کامیابی حاصل کی۔ معاہدے کے مطابق 92.5فیصد رقم پی آئی اے میں دوبارہ سرمایہ کاری کے لیے مختص کی جائے گی جبکہ 7.5 فیصد رقم وفاقی حکومت کو ملے گی۔ خریدار کو آئندہ 90دن میں باقی 25فیصد شیئرز خریدنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔عارف حبیب گروپ: کاروباری ساکھ اور نئے وعدے، عارف حبیب کا شمار پاکستان کے معتبر اور تجربہ کار سرمایہ کاروں میں ہوتا ہے۔اسٹاک مارکیٹ،سیمنٹ، فرٹیلائزر، تعلیم اور رئیل اسٹیٹ سمیت مختلف شعبوں میں ان کے گروپ کی موجودگی ایک مضبوط کاروباری پس منظر کی عکاس ہے۔پی آئی اے کی خریداری کے بعد انہوں نے ادارے کی بحالی، بیڑے میں اضافہ، نئے بین الاقوامی روٹس اور آپریشنل بہتری کے وعدے کیے ہیں۔ ان کے مطابق پی آئی اے کو جدید خطوط پر استوار کر کے نہ صرف منافع بخش بنایا جا سکتا ہے بلکہ اسے ایک بار پھر علاقائی سطح پر مسابقتی ایئرلائن بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ماضی کے وعدوں اور زمینی حقائق کے درمیان فرق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ملازمین، یونینز اور سماجی ذمہ داری:پی آئی اے کے تقریباً دس ہزار سے زائد ملازمین اس فیصلے سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ اگرچہ نئی انتظامیہ کی جانب سے ملازمتوں کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، مگر خدشات بدستور موجود ہیں۔ نجکاری کے بعد اخراجات کم کرنے کیلئے عملے میں کمی، کنٹریکٹ سسٹم یا مراعات میں کٹوتی جیسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔یونینز اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ ملازمین کے حقوق کو قانونی اور معاہداتی تحفظ دیا جائے۔ یہ معاملہ آنیوالے دنوں میں صنعتی تعلقات اور سیاسی ماحول پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
سیاسی ردِعمل اور عوامی تقسیم:پی آئی اے کی نجکاری نے سیاسی منظرنامے کو بھی متاثر کیا ہے۔ حکومت اسے معاشی اصلاحات کی کامیابی اور ایک جرات مندانہ فیصلہ قرار دے رہی ہے، جبکہ اپوزیشن جماعتیں اسے قومی اثاثوں کی فروخت سے تعبیر کر رہی ہیں۔ بعض سیاسی حلقوں کے نزدیک یہ فیصلہ ریاستی ناکامی کا اعتراف بھی ہے۔عوامی سطح پر رائے منقسم ہے۔ کچھ شہریوں کا خیال ہے کہ اگر نجکاری سے سروس بہتر اور ادارہ مستحکم ہوتا ہے تو یہ فیصلہ درست ہے، جبکہ دیگر کو خدشہ ہے کہ منافع کی دوڑ میں عوامی سہولت کو نظرانداز کر دیا جائے گا۔عالمی تجربات اور پاکستان کے لیے سبق:دنیا بھر میں قومی ایئرلائنز کی نجکاری یا جزوی نجکاری کی مثالیں موجود ہیں۔ برٹش ایئرویز اور جاپان ایئرلائنز کی مثالیں بتاتی ہیں کہ اگر ریاست مضبوط ریگولیٹری کردار ادا کرے تو نجکاری کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس بعض ممالک میں نجکاری کے بعد سروس مہنگی اور محدود ہو گئی ۔پاکستان کیلئے اصل سبق یہی ہے کہ نجکاری کے ساتھ ساتھ نگرانی، شفافیت اور عوامی مفاد کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
آگے کا راستہ: ریاستی ذمہ داری کا امتحان:پی آئی اے کی نجکاری پاکستان کے معاشی اور انتظامی نظام کا ایک بڑا امتحان ہے۔ اگر یہ فیصلہ ادارے کی بحالی، بہتر سروس اور مالی استحکام کا باعث بنتا ہے تو اسے ایک تاریخی کامیابی کہا جائے گا۔ بصورت دیگر یہ فیصلہ عوامی اعتماد کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پی آئی اے کا مستقبل اب صرف ایک کاروباری کنسورشیم کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ریاستی نگرانی، مضبوط پالیسی فریم ورک اور عوامی دبا سے جڑا ہوا ہے۔ آنیوالے برس ہی طے کریں گے کہ یہ فیصلہ پاکستان کیلئے درست سمت میں تھا یا ایک اور موقع جو ہم نے ضائع کر دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے