کالم

پی ڈی ایم ۔ عمران خان اور سانحہ 9 مئی

latif khokhar

بارہ تیرہ ماہ قبل عمران حکومت کا تختہ الٹا گیا، یہ فرماتے ہیں جمہوری عمل سے تبدیلی آئی یا لائی گئی،متاثرہ فریق اسے سازش کا شاخسانہ قرار دیتا ہے، لیکن جو بھی ہو، یہ ایک حقیقت ہے کہ اس تبدیلی کی صورت میں آج کل یہ تیرہ پارٹیاں برسراقتدار آ کر حکومت کر رہی ہیں، بلکہ یوں سمجھیں کہ بس کر ہی رہی ہیں، کچھ لوگ انہیں مکس اچار پارٹیاں کہتا ہے تو کوئی انہیں بغض عمران میں کسی خاص اشارے پر قائم کیا گیا محض ایک ”ان ہولی الائنس“ لیکن حکومت گرانے کے بعدماشااللہ ان درجن بھر تجربہ کاروں کی”باریک بینیوں“ کی وجہ سے اسوقت وطن عزیز تقریباً ڈیفالٹ کے کنارے پر آن کھڑا ہوا ہے جبکہ ایک سال قبل کا پاکستان بالکل ایسے نہ تھا، اسکے تو سارے کے سارے اعشاریے مثبت جانب گامزن تھے لیکن اب یہ کیوں مکمل اندھیروں کی طرف رواں دواں ہے۔ زمینی صورتحال خاصی دگر گوں ہے، مہنگائی نے عام عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، سفید پوش طبقہ اپنی عزت بچاتے بچاتے اپنی پہچان ہی کھو بیٹھا ہے۔ اب یا تو یہاں امیر رہتے ہیں یا لٹے پٹے غریب۔ ضروری اشیا کی طرف نظر دوڑائیں تو پیٹرول کی قیمت آسمان کی بلندیوں پر پہنچ چکی ہیں اور تو اور آٹے جیسی بنیادی ضرورت ناپید سی ہوتی جا رہی ہے، لیکن جس وقت دیکھو ٹی وی پر ان حکمرانوں کے مختلف چہرے عمران خان پر تبرہ بازی بلکہ سینہ کوبی کرتے نظر آتے ہیں، اخلاقیات کی ہر حد پار کرتے ہوئے ایک سے بڑھ کر ایک لیڈر بد زبانی کی ہر انتہا کو کراس کرتا نظر آتا ہے، تیرہ پارٹیوں کے مختلف نمائندے صبح سے شام تک باریاں لیتے نظر آتے ہیں،ایسی ایسی اصطلاحیں ایجاد ہو رہی ہے جنکا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔ اسکے صرف دو خطابات جب وہ انہیں ڈاکو یا چور کہتا ہے کے مقابلے میں اسے یہودی ایجنٹ،ملک دشمن، فتنہ، دہشت گرد،سلیکٹڈ، لاڈلا ،یو ٹرن خان کے ناموں سے پکارا جا رہا ہے۔ تم اورتو تکار کی گردان اگر مریم اورنگزیب یا شرجیل انعام کی زبان سے نکل رہی ہوں تو اللہ معافی۔ کانوں میں انگلیاں ڈال کر بندہ ٹی وی سے اٹھ کر بھاگ جانے ہی میں عافیت سمجھتا ہے، یہ دونوں تو خان پر گویا پی ایچ ڈی کئے بیٹھے ہیں، شدت جذبات اتنے خوفناک ہوتے ہیں جیسے آپ پریس کانفرنس نہیں بلکہ میدان میں مقابلے پر اترے ہوئے ہیں اور ابھی عمران کو کچا چبا جائیں گے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ سال بھر سے کسی کو ملک کے عمومی حالات کی کوئی فکر نہیں، ہر قدم عوام دشمن، ہر فیصلہ غریب کش۔ مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے، یہ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ گلیوں بازاروں میں لوگ انہیں دعائیں دے رہے ہیں یا جھولیاں اٹھا اٹھا کر انہیں بد دعائیں دے رہے ہیں، بس صبح دوپہر شام بلاناغہ ہر پریس کانفرنس عمران سے شروع ہوتی اور عمران پر ختم، اور تو اور عوامی جلسوں میں بھی سارے لیڈران اسی عمران کا رونا روتے روتے گھنٹوں گزار دیتے ہیں۔ کوئی عمران خان کو سیاست کا ناسور کہتا ہے، ٹیڑھی انگلی سے اسے سیاست بلکہ اس ملک سے ہی مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینکنے کے ڈائیلاگ بڑی رعونت سے بولے جاتے ہیں، لیکن انہوں نے اس ملک کا ان تیرہ ماہ میں ان سورماں نے جو بیڑہ غرق کر دیا ہے، اپنی کسی نالائقی کسی کوتاہی کا ذکر کرنی کے بجائے کمال ڈھٹائی سے اشارہ واپس عمران حکومت کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ شاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ بھئی یہ کل ہی کی تو بات ہے جناب، پیٹرول ڈیڑھ سو کے قریب اور ڈالر 170-180 کے اردگرد گھوم رہا تھا، کھانے پینے کی اشیا آج کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم۔ مہنگائی ضرور تھی، عمران خان کا دور کوئی مثالی یا قابل رشک بالکل نہ تھا، سیاسی زیادتیاں اسوقت بھی ہوتی تھیں، لیکن اتنی لٹ مار بالکل نہیں تھی کہ صبح ریٹ ایک اور شام کو ڈبل۔ یہاں تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ایسے میں ہم عوام آپ کے اتحاد کو کس بات کا کریڈٹ دیں کہ آپ سیانے داناں نے ہمارے اس پیارے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ جدھر دیکھو لاقانونیت، غنڈہ گردی چھینا جھپٹی، کسی کی عزت محفوظ نہیں، کسی کو کسی کی جان کی پرواہ نہ ہی جمہوری حق کی خاطر نکلنے والی خواتین کی کوئی عزت و تکریم،،، ظلم کی حد ہے مرد پولیس اہلکار عورتوں کو سڑکوں پر سر عام گھسیٹ رہے ہیں۔ پکڑنا ایک عام سے ورکر کو ہوتا ہے اور گھس یہ رات کو گھروں میں جاتے ہیں، مخالفین کے بوڑھے والدین ماں بہنوں بچوں کو حراساں کرنا روز کا معمول بن چکا ہے، ادھر مہنگائی ہے کہ الامان الحفیظ۔ اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگوں کی چیخیں نکل گئی ہیں، لیکن ہمارا کوئی لیڈر منہ اٹھائے کبھی کس ملک کو جا رہا ہے توکوءچارٹرڈ طیاروں میں کس کس ملک کی سیر کر رہا ہے اور وہ بھی بن بلائےاور عوام بے چارہ یہاں روٹی کو ترس رہی ہے۔ اب آتے ہیں 09 مئی کے واقعات پر۔ جو ہوا بہت ہی برا ہوا، لیکن کیا عمران خان کےساتھ بھی ایک بہت ہی بے ہودا اور بھونڈا مذاق نہ کیا گیا۔ طاقت کے نشئے میں سب بھول گئے کہ وہ بھی لاکھوں کروڑوں کی آنکھ کا تارا ہے، ابھی چند ماہ قبل تو وہ وزیر اعظم تھا، چلو آپ نے کسی نہ کسی طرح اسے اتار دیا لیکن کیا وہ سیدھا آپ سے کرسی مانگ رہا ہے،،،؟ الیکشن کا مطالبہ کوئی غیر قانونی یا غیر آئینی تو نہیں کرتا، آپ ضد چھوڑیں الیکشن ہونے دیں ۔ ہو سکتا ہے وہ ہار جائے، مطلوبہ تعداد میں سیٹیں ہی نہ جیت سکے ، ہو سکتا عوام اسے دوبارہ مسند اقتدار پر پھر سے بٹھا دیں، یہ فیصلہ تو آخر عوام نے ہی کرنا ہے، لیکن آپ کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ الیکشن کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کریں یا کسی بھی صورت میں عوام کو اسکے رائٹ آف ووٹ کے آئینی حق سے اپنی خواہشات کے مطابق محروم رکھیں۔ عمران خان نے تو آپ کے تمام تر حربوں کے باوجود یہ ثابت کیا ہے کہ وہ خود بھی ایک سچا محب وطن پاکستانی ہے اور اسکے چاہنے والے بھی جیوے جیوے پاکستان پر مر مٹنے والے ہیں لیکن 09 مئی کے فورا ًبعد بھی جو ہوا اسے تو سوچ کر ہی دل خون کے آنسو رو دیتا ہے۔قانون کو ہاتھ میں لینا کسی طور قابل برداشت نہیں ہے لیکن کہاں گئے تھے وہ سب سے ڈسپلنڈ اور سمجھدار لوگ جنہیں قوم سلوٹ مارتی تھی، کدھر گئیں انکی عشروں کی دانائیاں اور بردبار یاں کہ وہ بروقت سمجھ جاتے اور عوام کی پھڑکتی پلس فورآ سے بھانپ کر بات کو اس حد تک نہ آنے دیتے، کاش وہ یہ بھی بھانپ لیتے کہ اس جیسی صورتحال میں دشمن ہمیشہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ فائدہ اٹھانے والے بات بگاڑتے اور اسکا بتنگڑ بنا دیتے ہیں، یہ بھی انسانی جبلت ہے کہ جب بے لگام عوام غم و غصے کی صورت میں ہوں تو وہ آو¿ٹ آف کنٹرول ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر اپنی زندگیوں میں طرح طرح کی فریسٹریشنوں کا شکار ہوتے ہیں، معاشرے میں بے جا تفاوت، بے انصافیوں کے شکار یہ لوگ جب بھی موقع ملتا ہے،جو سامنے آتا ہے تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں، بپھرے یہ نوجوان کسی کی نہیں سنتے لیکن افسوس صد افسوس یہ سب کچھ کسی نے نہ سوچا کسی نے نہ بھانپا کہ عوام اور ادارے یوں کبھی آمنے سامنے بھی ہو سکتے ہیں اور عشروں سے قائم ہمارا یہ مقدس بھرم کبھی ٹوٹ بھی سکتا ہے، لیکن یہ صبح دوپہر شام کی خوراکیں دینے والے کبھی اس بات پر سر جوڑ کر بیٹھے کہ اس بھرم کے ٹوٹنے میں کس کس کا کتنا کردار ہے، کس نے عوام کو اتناانڈر اسٹیمیٹ کیا اور کیوں کیا۔ چلو پی ڈی ایم کی سیاسی مخاصمت تو بنتی ہے کہ وہ اپنی حریف پارٹی کو برداشت نہ کرے، انکا ان مخصوص حالات میں اپنے گلوبٹوںسے بھی خاص قسم کے اہداف پورے کرانے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن اداروں کو تو زمینی حقائق اور سیاسی درجہ حرارت کا لمحہ بہ لمحہ کا ادراک ہوتاہے۔ کیا اس دن یہ سب کچھ اچانک ہو گیا، نہیں ہر گز نہیں لیکن کسی نے یہ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ عوام کیا چاہتے ہیں، عوام کا تو احتجاج کا جمہوری حق ہے، لیکن کیا اداروں کا بھی یہ حق ہے کہ وہ عوام کو اسی نفرت میں کچل دیں۔ نہیں جناب ایسا تو کسی غیر ترقی یافتہ کسی تھرڈ ورلڈ غریب سے ملک میں بھی نہیں ہوتا، ہر جگہ عوام کی بات سنی جاتی اور بات ماننے کی ہو تو مانی بھی جاتی ہے، ادارے تو ہمیشہ سب کے سانجھے ہوتے ہیں، لیکن یہاں تو سیدھا فسادی اور بلوائی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ کاش بات یہاں تک نہ پہنچتی، ہمارا بھی رومانس قائم رہتا اور آپ سب کا بھرم بھی برقرار لیکن افسوس بحیثیت قوم ہم سب نے قومی وحدت کا اتنا بڑا نقصان کر دیا ہے کہ یہ نفرت کی خلیج لگتا ہے اب بھرتے بھرتے شاید سالوں لگ جائیں۔ عشروں پر محیط اس لازوال اور سچی داستان کو ہم سب نے محض ایک افسانہ صرف ایک کہانی بنا کر رکھ دیا ہے اور اسمیں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے