ملک میں جاری سیاسی و عدالتی بحران میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے اہم ریمارکس سامنے آئے ہیں ۔جس جے تحت عدالتی اصلاحات کے قانون سپریم کورٹ ایکٹ 2023 کیخلاف دائر کی گئی آئینی درخواستوں پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی جانب سے اس قانون پر حکم امتناع کے خاتمہ کی استدعا مسترد کردی ہے اور حکم امتناع کو تاحکم ثانی برقرار رکھا ہے۔ عدالت نے پاکستان بار کونسل کی جانب سے کیس کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کے سات سینئر ترین ججوں پر مشتمل لارجر بنچ کی تشکیل کی استدعا بھی مسترد کرتے ہوئے بینچ سے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو علیحدہ کرنے سے متعلق استدعا کوبھی مسترد کردیاہے جبکہ اس قانون سازی سے متعلق ہونےوالی پارلیمانی کارروائی اور قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا تمام ریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نہایت اہم اور دوٹوک ریمارکس دیئے کہ سیاستداں انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیاست دانوں کی خواہشات اسی طرز کی ہیں،انہیں وہی فیصلے درست لگتے ہیں جو ان کے سیاسی مفادات پر پورا اترتے ہیں جبکہ عدالتوں نے آئین اور قانون کے تحت فیصلے دینے ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے دوٹوک الفاظ میں یہ بھی واضح کر دیا کہ ہر ادارہ سپریم کورٹ کو جوابدہ ہے، سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کر دیا ہے، سینئر جج اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے ۔یہ بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل آٹھ رکنی لاجر بینچ تھا جس نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیئے ہیں کہ یہ معاملہ ریاست کے تیسرے ستون سے متعلق قانون سازی کا ہے، جسے سنجیدگی اور بالغ النظری کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے، زیر غور قانون اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہے جسے پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے، اور اسکا تعلق عدلیہ کے اختیارات سے ہے۔وفاقی قانون سازی فہرست میںپارلیمنٹ کی قانون سازی کی حدو د وقیود مقرر ہیں،اس ملک کا مسلمہ قانون ہے کہ آئین کے بنیادی خدو خال نہیں تبدیل کئے جاسکتے ہیں، جمہوریت اور وفاقیت کے علاوہ عدلیہ کی آزادی بھی آئین کا بنیادی جز و ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عدلیہ کی آزادی کے منافی قانون سازی نہیں کی جاسکتی ہے۔ زیر غور درخواستوں میں الزام لگایاگیا ہے کہ سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر )ایکٹ 2023کے ذریعے آئین کے بنیادی خد و خال سے متعلق قانون سازی کرکے آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو بنچ سے علیحدہ کرنے سے متعلق استدعا کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس نے آبزرویشن دی ہے کہ کسی جج کیخلاف شکایت یا ریفرنس دائر ہونے سے بحیثیت جج اسکا کام متاثر نہیں ہوتا ہے۔ انہوںنے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیس کا حوالہ دیتے ہوئے آبزرویشن دی کہ مذکورہ کیس کے فیصلے میں طے کیے گئے اصولوں کی پچھلے کئی سالوں سے پیروی کی جارہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ کسی جج کے خلاف ریفرنس صدر کی جانب سے آتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے اکثریتی ججوں کیخلاف پرائیویٹ لوگوں کی شکایات آتی رہتی ہیں۔ جج کیخلاف شکایت سے اسکے منصب پر فرق نہیں پڑتاہے۔ جب تک شکایت یا ریفرنس پر سپریم جوڈیشل جوڈیشل کونسل کی رائے نہیں آجاتی کسی جج کو عدالتی امور کی انجام دہی سے نہیں روکا جاسکتاہے۔ سپریم کورٹ کے ہر جج کی عزت ہے،سب عدالت کے فیصلوں کے پابند ہیں،اگر عدالت کے ججوں کی عزت نہیں کی جائیگی تو انصاف کیلئے نہیں کہا جاسکتا ہے۔ انہوںنے مزید کہا ہے کہ سیاسی شخصیات سپریم کورٹ سے انصاف نہیں بلکہ من پسند فیصلے چاہتی ہیں، اسی لیے پک اینڈ چوز کی بات کرتے ہیں۔ انہوںنے اس قانون پر حکم امتناع کے خاتمہ کی ستدعا سے متعلق کہاہے کہ عبوری حکمنامہ جاری رہیگا۔ تحریک انصاف کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ میں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ اس قانون سازی سے متعلق گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہوچکا اور اب سپریم کورٹ ایکٹ 2023 باقاعدہ ایک قانون بن چکاہے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمہ کی پچھلی سماعت کا حکمنامہ عبوری نوعیت کا ہے،ہمارے آئین کا ڈھانچہ بنیادی خدو خال پر کھڑا ہے اور آئین کے بنیادی خدوخال تبدیل نہیں کیے جاسکتے ہیں،دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق قانون سازی ہو بھی سکتی ہے یا نہیں؟ درایں اثنا عدالت اٹارنی جنرل کی حکم امتناع واپس لینے کی استدعاکو مسترد کردیا،جبکہ چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ اس عدالت کو سمجھا تو دیں؟ کہ یہ قانون کیا ہے اور کیوں بنایا گیا ہے۔بلاشبہ یہ کسی اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے،جس سے عدلیہ آزادی متاثر ہونے کا خدشہ ہے،اسی لئے چیف جسٹس نے اس کے خلاف حکم امتناع جاری کر رکھاہے،اس کیس کی اگلی تاریخ 8مئی رکھی گئی ہے۔
صدر مملکت کا وزارت خارجہ کو صائب مشورہ
پاکستان نے متنازع خطے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جی20 سربراہی اجلاس کے انعقاد کی بھارتی کثیر المحاذ مہم پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اس ضمن میں نہایت اہم اور صائب مشورہ دیتے ہوئے وزارت خارجہ سے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ متنازع علاقے میں جی20 سربراہی اجلاس منعقد کرنے کے منصوبہ بند اقدام کے پیچھے بھارت کے مذموم عزائم اور مقاصد کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرے۔ صدر نے کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوینر محمود احمد ساغر کے ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے وزارت خارجہ سے مناسب کارروائی کے لیے کہا ہے۔حریت کانفرنس لیڈر محمود احمد ساغر کے خط میںجی20 کے رکن ممالک کا اجلاس بلانے کے بھارتی حکومت کے انتہائی متنازع اقدام اور کشمیریوں کی حق خودارادیت کےلئے جاری جدوجہد پر اس کے دور رس نتائج کی جانب پاکستان سے فوری توجہ دینے کی درخواست کی تھی۔خط میں کنوینر نے کہا ہے کہ بھارت کشمیر کی بین الاقوامی اور قانونی حیثیت کو کمزور کرنا اور اس تصور کو تقویت دینا چاہتا ہے کہ کشمیر اس کا اندرونی معاملہ ہے۔محمود ساغر نے اقوام متحدہ اور دیگر علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی جانب سے بڑی سفارت کوششوں کی ضرورت پر روشنی ڈالی تاکہ بھارت کے مذموم عزائم اور مقبوضہ کشمیر میں اجلاس کے پیچھے اس کے مذموم مقاصد کو بے نقاب کیا جا سکے۔جی 20کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک کو بھی دیکھنا ہو گا کہ اقوام متحدہ نے جموں وکشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کررکھا ہے،اس لئے وہ عالمی ادارے کی قراردادوں کی مخالفت سے گریز کریں۔
قابل استعمال خوراک کا ضیاع
پاکستان جو شدید غذائی قلت سے دوچار ہے ،اس ضمن میں انتہائی تشویشناک رپورٹ سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں ہر سال 4 ارب ڈالر کی خوراک ضائع ہو ئی رہی ہے۔یہ بات وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی دستاویزات میں سامنے آئی ہے۔بتایا گیا ہے کہ پاکستان شدید غذائی قلت کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود ہر سال 4 ارب ڈالر کی خوراک یعنی سالانہ ملکی پیداوار کی 26 فیصد خوراک ضائع ہوتی ہے، ملک میں خوراک کا سالانہ ضیاع 19.6ملین ٹن ہے۔حد یہ کہ شکل، سائز اور رنگ کے معیار پرپورا نہ اترنے والی تازہ خوراک بھی ضائع کردی جاتی ہے، دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں غذائی اشیا کی زیادہ مقدارباورچی خانوں اور کھانے پینے کے مراکز پر ضائع ہوتی ہے، باورچی خانوں میں اکثر غذائی اشیا استعمال نہیں ہوتیں یا چھوڑ دی جاتی ہیں، گھروں اورکھانے پینے کے مراکز میں غذائی اشیا ضرورت سے زائد پکائی جاتی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اجناس اورپھلوں کومحفوظ کرنے کی سہولیات کی کمی بھی ضیاع کا بڑا سبب ہے۔ یقینا یہ امر تشویش کا باعث ہونا چاہئے کہ اتنی بڑی مقدار میں قابل استعمال خوراک کا ضیاع ،لکی معیشت کے لئے منفی اثرات چھوڑے گی،جس کا تدارک جرنا وقت کا تقاضہ ہے۔
اداریہ
کالم
چیف جسٹس آف پاکستان کے اہم اور فکرانگیز ریمارکس
- by web desk
- مئی 4, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 641 Views
- 2 سال ago