ماہرین کے مطابق گزشتہ چار برس میں بھارتی حکومت 418بار انٹرنیٹ کو بند کر چکی ہے جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر ،منی پور اور دیگر بھارتی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنا ہے اسی سلسلے میں ایک جانب بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے چین کے خلاف زہر اگلتے ہوئے کہا کہ چین کا بھارت کو سٹپیل ویزہ دینا دہلی لےے ناقابل قبول ہے ۔مبصرین کے مطابق سبھی جانتے ہےں کہ مودی کی قیادت میں نہتے کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں سمیت سبھی اقلیتوں کےخلاف بھارتی حکومت نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے تو دوسری طرف عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ مودی کی محاذ آرائی سامنے ہے ۔یاد رہے کہ تین برس قبل 20جون 2020کو بھارتی فوج نے چینی افواج کے ہاتھوں ہزیمت اٹھائی ان کی چوٹوں سے بھارت تاحال اپنے زخم سہلا رہا ہے ۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے سنجیدہ حلقوں نے کہا ہے کہ سولہ مئی 2014 کو بھارتی لوک سبھا کے عام انتخابات کے نتائج آئے اور 26 مئی کو مودی نے پہلی مرتبہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا۔ انھوں نے 14 سے 16 مئی 2015 کو چین کا دورہ کیا اور اگرچہ بھارت کی جانب سے اس دورے کو کامیاب قرار دیا گیا مگر جب مودی 14 مئی کو چین پہنچے تھے تو چین کے سرکاری ٹی وی ”سی سی ٹی وی“ نے اپنے تمام میڈیا پر بھارت کا جو نقشہ دکھایا اس میں مقبوضہ جموں کشمیر اور ارونا چل پردیش بھارتی نقشے شامل نہیں تھے جس کے ردعمل کے طور پر بھارتی میڈیا اور سفارتی حلقوں میں گویا ایک کہرام سا مچ گیا تھا۔یوں اس دورے کے آغاز میں ہی چینی قیادت نے بالواسطہ طور پر اپنے عمل سے مودی پر بھی واضح کر دیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر اور ارونا چل پردیش پر بھارتی ناجائز تسلط سے متعلق چین کا موقف کیا ہے اور پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں بھی چین کہاں کھڑا ہے۔چین اور بھارت کے مابین اس سرحدی تنازعہ کے حل کی جانب ذرا بھی پیش رفت نہیں ہو سکی بلکہ حالات مزید خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں، چین کی جانب سے بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کا اس قدر منہ توڑ جواب دیا گیا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ فیس سیونگ کے طور پر کیا موقف اختیار کریں۔ اسی کے ساتھ ارونا چل پردیش کے شہریوں کو چین کے ”نتھی ویزہ“ (Staple Visa) کا معاملہ بھی جوں کا توں ہے۔واضح رہے کہ چین مقبوضہ ارونا چل پردیش کے شہریوں کو چین کا ویزہ بھارتی پاسپورٹ پر نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ایک الگ کاغذ منسلک ہوتا ہے جس پر چین آنے کا خصوصی اجازت نامہ درج ہوتا ہے۔ اسے ”سٹیپل ویزہ“ کانام دیا جاتا ہے۔ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے بارہا دو ٹوک انداز میں واضح کیا جاتا ہے کہ چین، بھارت اور چین کے درمیان مشرقی حصے سے متعلق ایک واضح اور مستقل موقف رکھتا ہے۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ جنوبی تبت (مقبوضہ ارونا چل پردیش) بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہے۔یہ در اصل جنوبی تبت ہے۔ یہ حقیقت میں وہ علاقہ ہے جس پر بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی مانند نا جائز تسلط جما رکھا ہے۔ اِٹا نگر مقبوضہ ارونا چل پردیش کا دارالحکومت ہے۔ یاد رہے کہ مقبوضہ ارونا چل پردیش کا رقبہ 32,333 مربع میل ہے۔ اس مقبوضہ علاقے کی آبادی 2011 کے بھارتی اعداد و شمار کے مطابق 13 لاکھ 82 ہزار 6 سو گیارہ ہے۔یہ امر انتہائی توجہ کا حامل ہے کہ دہلی سرکار ہمیشہ سے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے تبھی تو ایک طرف نیپال کے ساتھ بھارت کے تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے بلکہ ان میں اچھی خاصی کشیدگی پائی جاتی رہی ہے کیونکہ 1988 اور 1989 میں ہندوستان نے کئی ماہ تک نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کیے رکھی اور جب نیپال نے سیکولر اصولوں پر مبنی آئین اپنے یہاں لاگو کیا تو بھارت نے اس کی سخت مخالفت کی اور یہ سلسلہ ہنوذ جاری و ساری ہے۔اب دوبارہ نیپال حکومت بھارت کے سامنے ڈٹ گئی ہے اوربھارت و نیپال کے مابین سرحدی علاقہ میں نئی سڑک کی تعمیر اور افتتاح پرتنازع کھڑا ہوچکا ہے۔کھٹمنڈو سرکار کی جانب سے نئے نقشے میں کئی نیپالی علاقوں کو بھارت کے زیر قبضہ قرار دیا گیا ہے۔یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سکم جیسی چھوٹی ہمالیائی ریاست کو بھی دہلی نے تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہڑپ کر لیا تھا اور یہ بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ سری لنکا کے خلاف بھارتی سازشیں تقریباً چوتھائی صدی تک جاری رہیں اور اس ضمن میں ”را“ کی شہہ پر ”تامل ٹائیگرز“ نے عرصہ دراز تک سری لنکا میں جو سازشیں اور تخریب کاری انجام دی اسی کے نتیجے میں ایک مرحلے پر سابق بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں بھی بھارت کی جانب سے سری لنکا کے پانیوں میں آئے روز جو در اندازی جاری ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔اپنی اسی مکروہ روش کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارت نے چین کے خلاف سازشوں اور پراپیگنڈے کا نیا سلسلہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ نیپال اور عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تازہ ترین سرحدی کشیدگی اور بھارت چین سرحد پر دونوں ممالک کی افواج آمنے سامنے آتے ہی تما م ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاملات بگاڑنے والا بھارت اب خود بین الطرفین چیلنجز سے دوچار ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، مشیر قومی سلامتی اجیت ڈووال بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھارت چین سرحدی کشیدگی کا ہنگامہ برپا ہونے کے باوجود بھارتی سول اور ملٹری قیادت تاحال اپنا سرکاری موقف پیش کرنے گریزاں ہے جبکہ بھارتی میڈیا چیخ رہا ہے کہ بھارت اپنے سینکڑوں مربع کلومیٹر رقبے کا قبضہ کھو چکا ہے۔ماہرین کے مطابق تمام ہمسایہ اور سارک ممالک کے ساتھ سرحدی،فوجی اور آبی تنازعات میں الجھ کر تمام پڑوسی ممالک کو پریشان کرنے والا بھارت اب خود بین الطرفین چیلنجز کا شکار ہو کر کوئی موقف تک پیش کرنے سے قاصر ہے۔ بہر حال امید کی جانی چاہیے کہ عالمی برادری اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اس کے حل کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائیں گے اور بھارت کو اس کی روش سے باز رکھنے کی سعی کی جائے گی وگرنہ۔۔۔۔۔!