سبھی جانتے ہےں کہ 5اگست کو وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی متفقہ طور پر منظوری دی گئی۔تفصیل اس معاملے کی کچھ یوں ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اور ادارہ شماریات سمیت دیگر متعلقہ محکموں کے حکام شریک ہوئے۔یاد رہے کہ یہ رواں سال پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری جنوبی ایشیا میں ڈیجیٹلائزیشن کی سب سے بڑی مہم تھی جسے عالمی سطح پر سراہا گیا اورجنوبی ایشیا کے پہلے خود شماری پورٹل سے پاکستان کے 6.6 ملین خاندانوں نے استفادہ حاصل کیا جو اس نظام پر ان کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ ادارہ شماریات کے سربراہ نعیم ظفر کے مطابق پا کستان کی ساتویں ڈیجیٹل خانہ و مردم شماری کے حتمی اعداد و شمار کےمطابق پاکستان کی کل آبادی 241.49ملین ہے اور آبادی میں اضافے کی شرح 2.55 فیصد ہے۔ صوبہ پنجاب کی کل آبادی 127.68ملین ہے جبکہ صوبہ سندھ کی کل آبادی 55.69 ملین اور خیبر پختونخوا ہءکی کل آبادی 40.85 ملین ہے۔ بلوچستان کی کل آبادی 14.89 ملین ہے اور اسلام آباد کی آبادی 2.36 ملین ہے۔ انہوں نے مردم شماری کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں آبادی کے اضافے کی شرح2.53 فیصد، سندھ میں 2.57 فیصد، بلوچستان میں3.20 فیصد، خیبر پختونخوا ہءمیں2.38فیصد اور اسلام آباد میں 2.81فیصدہے۔ پاکستان کی دیہی آبادی 61.18 فیصد جبکہ شہری آبادی 38.82 فیصد ہے۔خیبر پختون خواہ کی 84.99 فیصد آبادی دیہی جبکہ 15.01 فیصد شہری،پنجاب کی 59.30 فیصد آبادی دیہی جبکہ 40.70 فیصد شہری، سندھ کی 46.27 فیصد آبادی دیہی اور 53.7 فیصد شہری ہے۔ بلوچستان کی 69.04 فیصد آبادی دیہی جبکہ 30.96 فیصد شہری آبادی ہے۔ اسلام آباد کی 53.10 فیصد آبادی دیہی جبکہ 46.90 فیصد آبادی شہری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ساتویں خانہ و مردم شماری 2023 پاکستان کی تاریخ کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری ہے اور یہ پاکستان کی ساتویں خانہ و مردم شماری جنوبی ایشیا کا سب سے بڑاڈیجیٹلائزیشن پراجیکٹ ہے۔ ماہرین کے مطابق اس مردم شماری نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص بہتر کیا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ تمام متعلقہ فریقین کے درمیان موثر ہم آہنگی اور مرکزی فیصلہ سازی کے جدید نظام سے لیس قومی مردم شماری کوآرڈینیشن سینٹر اور صوبائی مردم شماری کوآرڈینیشن سینٹرز قائم کیے گئے۔یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ 121,000 آئی ٹی تربیت یافتہ ڈیٹا جمع کرنے والے افراد کو ٹیبلیٹس اور مخصوص آپریٹنگ سسٹم کے ذریعے مرکزی ڈیٹا بیس سے بغیر کسی رکاوٹ کے منسلک کر کے یہ عمل مکمل کیا گیااور40 ملین عمارتوں کو کثیر خصوصیات کے حامل سیٹلائٹ نقشوں پر جیو ٹیگ کیا گیا جو گوگل میپس سے زیادہ جامع تھیں۔یقینا یہ ایک بہت بڑا مرحلہ تھا جس میں مردم شماری کے دوران روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 5 ملین افراد اور مجموعی طور پر 250 ملین سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کو مرکزی سینٹرز سے بغیر کسی رکاوٹ کے منسلک کیا گیا۔یاد رہے کہ شکایات کے انتظام اور مسائل کے حل کےلئے 150 ایجنٹس کے ساتھ چوبیس گھنٹے کام کرنےوالے کال سینٹرز نے 2 ملین کالز کیں۔ ڈیٹا کی کوالٹی ایشورنس اور کوریج کے تجزیہ کے لیے مردم شماری کے عمل کے دوران کمپیوٹرز کی مدد سے ٹیلی فونک انٹرویو لینے کا طریقہ کار استعمال کیا گیا۔علاوہ ازیں فیلڈ سٹاف کےلئے موثر سپورٹ سسٹم کی فراہمی و¿کےلئے مردم شماری کے سافٹ ویئر، ٹیبلٹس کے انتظام اور سیکیورٹی کال سینٹرز پر 37 ورکنگ گروپ تشکیل دیے گئے۔کسے معلوم نہےں کہ دُنیا کے ہر ملک میں مردم شماری کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس سے آبادی کی تعداد‘ اس کے مختلف طبقوں کی صحت‘ تعلیم روز گار‘ معاشی حالت اور نقل وحرکت کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جاتی ہیں اوران معلومات کی روشنی میں آئندہ کےلئے آبادی کی فلاح وبہبود اور ملک کی ترقی کےلئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے اس لئے ہر ملک میں ایک مخصوص وقفے کے بعد باقاعدہ طور پر مردمِ شماری کی جاتی ہے۔ اس کےلئے حکومت میں ایک الگ شعبہ ہوتا ہے جس کا کام نہ صرف مردم شماری کےلئے مطلوبہ انتظامات کرنا بلکہ مردم شماری سے حاصل اعداد و شمار کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی تجزیئے کی بنیاد پر حکومت مکمل ترقی اور قوم کی فلاح و بہبود کی خاطر طویل المیعاد بنیادوں پر پالیسیاں متعین کرتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں آزادی کے فوراً بعد 1950میں مردم شماری کےلئے ایک الگ شعبہ قائم کیا گیا تھا۔ ابتداءمیں یہ شعبہ مرکزی وزارتِ داخلہ کا حصہ تھا اور اسی کے تحت پاکستان میں1951 میں ملک کی پہلی مردم شماری کا اہتمام کیاگیا تھا۔ لیکن متحدہ ہندوستان کے وہ علاقے جو اب پاکستان کا حصہ ہیں‘ میں پہلی مردم شماری 1881 میں منعقد ہوئی تھی۔1951 میں پہلی مردم شماری کے بعددوسری مردم شماری 1962 میں ہوئی ۔ تیسری مردم شماری 1971 میں ہونی چاہئے تھی لیکن مشرقی پاکستان کے سیاسی بحران اور بھارت کے ساتھ جنگ کی وجہ سے1972 میں مردم شماری کا انعقاد کیا گیا۔ چوتھی مردم شماری اپنے دس برس کے مقررہ وقفے کے بعد یعنی 1981 میں ہوئی لیکن اس سے اگلی یعنی پانچویں مردم شماری1991 کے بجائے 1998 (سات سال کی تاخیرسے) کرائی گئی ۔ اس تاخیر کی وجہ بھی ملک کے بعد غیر معمولی سیاسی حالات اور خاص طور پر افغانستان میں سابقہ سوویت یونین کی مداخلت اور اس مداخلت کے خلاف افغان تحریک مزاحمت کے باعث لاکھوں افغان مہاجرین کی پاکستان میں آمد تھی۔ ان مہاجرین کی غالب اکثریت کا تعلق پشتون نسل سے تھا۔ اس لئے وہ پاکستان کی پشتون آبادی میں اس طرح گھل مل گئے کہ اُنہیں مردم شماری کے دوران علٰیحدہ شمار کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا تھا لیکن چونکہ مردم شماری کو زیادہ دیر تک م¶خر نہیں کیا جاسکتا تھا‘ اس لئے1998 میں پاکستان کی پانچویں مردم شماری کا انعقاد ہوا۔ مبصرین کے مطابقو¿ یہ مردم شماری ملک کی متنازعہ ترین مردم شماری سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ پاکستان کے بعض علاقوں خصوصاً بلوچستان کے بعض حصوں میں مردم شماری کے عملے کو کام کرنے سے روک دیاگیا تھا۔ اس کی بھی بڑی وجہ بلوچستان کے پشتون علاقوں میں آباد افغان مہاجرین کی موجودگی تھی جو پاکستان میں اپنے طویل قیام کے دوران نہ صرف جائیداد‘ روزگار اور کاروبار کے مالک بن چکے تھے‘ بلکہ متعلقہ محکموں کی ملی بھگتو¿ سے اُنہوں نے پاکستان کے قومی شناختی کارڈ بھی حاصل کر لئے تھے۔ ایسے میں بلوچستان کی بلوچ آبادی کوصحیح یا غلط خدشہ تھا کہ ان افغان مہاجرین کو پاکستان کے شہری شمار کرکے صوبے میں پشتون آبادی کو زیادہ ظاہر کرکے بلوچ آبادی کو اقلیت بنانے کی کوشش کی جائےگی۔ بلوچستان میں غیربلوچ پاکستانی باشندوں مثلاً پنجابی اور کراچی سے اُردو بولنے والے لوگوں کی آباد کاری کی وجہ سے صوبے کی بلوچ آبادی میں پہلے ہی بہت تشویش پائی جاتی تھی۔لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کے قیام کی وجہ سے بلوچ آبادی میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی تھی کیونکہ بلوچیوں کو ڈر تھا کہ اگر ان افغان مہاجرین کو پشتون آبادی کا حصہ ظاہر کیا گیا تو صوبے میںآباد دو بڑے لسانی گروپوں یعنی پشتون اور بلوچوں کے درمیان آبادی کا توازن اول الذکر گروپ کے حق میں چلا جائے گا۔بہر کیف حرف آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ توقع رکھنی چاہےے کہ نئی مردم شماری کے انعقاد سے ملک بھر میں وسائل کے صحیح اعدادوشمار کے تخمینے سے سبھی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔