لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف اس وقت اقبال کے اس شعر کی تذکیر بن چکے ہیں کہ:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
وہ یہی پیغام لے کر نوجوان نسل کے پاس جا رہے ہیں کہ تم سب نوجوان اس ملت کے مقدر کا ستارہ ہو۔ خود کو پہچانو۔
آج جب پاکستان نظریاتی یلغار کی زد میں ہے اور سچ و جھوٹ کے مابین فرق مٹا دیا گیا ہے، ایسے وقت میں ڈی جی آئی ایس پی آر، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری، نے فکری قیادت کا علم اٹھایا ہے۔ وہ نہ صرف فوج کے ترجمان ہیں بلکہ قومی بیانیے کے سپاہی بھی ہیں انہوں نے جس جرات اور وژن کے ساتھ پاکستان کے بیانیے کو نوجوان نسل کے سامنے رکھنے کا بیڑا اٹھایا ہے، وہ محض ادارہ جاتی تقاضا نہیں بلکہ ایک فکری جہاد ہے۔
"اور سچ کو جھوٹ کے ساتھ نہ ملاؤ، اور نہ ہی جان بوجھ کر سچ کو چھپاؤ۔”(سور البقرہ، 2:42)
یہ قرآنی حکم اس فکری جنگ کا نچوڑ ہے جو اس وقت پاکستان میں جاری ہے۔ آج کے دور میں، جب جھوٹ کو سچ کا لبادہ پہنایا جا رہا ہے، اور گمراہی کو آزادی رائے کا نام دیا جا رہا ہے، ایسے میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی یہ کوشش کہ وہ نوجوان نسل کو اصل حقائق سے روشناس کرائیں، نہایت اہم اور قابلِ ستائش ہے۔
برسوں سے پاکستان کے نظریاتی ستونوں کو کمزور کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ روایتی جنگ نہیں، یہ ایک ذہنی حملہ ہے کتابوں، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے۔ پاکستان اسٹڈیز جیسے مضمون کا مذاق اڑایا گیا، جس کا مقصد فخر اور قومی شعور بیدار کرنا تھا، اسے پروپیگنڈا قرار دے کر نوجوانوں کے اذہان میں نفرت اور الجھن پیدا کی گئی۔ پاکستان کی حقیقی تاریخ کو مسخ کیا گیا اور جو نظریہ قیام پاکستان کی بنیاد تھا، اسے بوجھ بنا کر پیش کیا گیا۔
یہ کام اصل میں اسکالرز، دانشوروں اور اہلِ علم کا تھا کہ وہ سامنے آ کر پاکستان کی کہانی دلیل، تحقیق اور مکالمے کے ذریعے بیان کرتے۔ مگر افسوس کہ کئی لوگ خاموش رہے، اور کچھ نے لاعلمی میں دشمن کے بیانیے کا حصہ بن کر اس الجھن کو مزید پھیلا دیا۔
یہ وہ خلا تھا جسے اب ڈی جی آئی ایس پی آر پورا کر رہے ہیں ،نہ کسی شہرت کے لالچ میں، بلکہ ایک قومی ضرورت کے تحت۔ ان کی مہم سچ کی وضاحت اورجھوٹ کو بے نقاب کرنے کے لیے ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا:”پاکستان اس لیے حاصل کیا گیا تاکہ ہم اپنی تہذیب، تاریخ اور دین کے مطابق آزاد فضا میں زندگی گزار سکیں۔”
قرآن ہمیں سچ چھپانے اور جھوٹ کو سچ سے ملانے سے روکتا ہے، مگر افسوس کہ پاکستان کی فکری فضا میں یہی ہو رہا ہے۔ جب آزادیِ رائے کے نام پر ریاست کی بنیادوں کو متزلزل کیا جائے تو خاموش رہنا جرم بن جاتا ہے۔تاریخِ اسلام ہمیں سکھاتی ہے کہ سچ اور حکمت کے ساتھ مکالمہ ہی اصل فتح ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اکرم ﷺ نے تلوار سے نہیں، بلکہ فہم، تدبر اور حکمت سے دشمن کو شکست دی۔ جنگِ خندق میں مسلمانوں نے صرف قوت سے نہیں بلکہ اتحاد، منصوبہ بندی اور مورال سے برتری حاصل کی۔ آج ہمیں بھی یہی اسلحہ درکار ہے ،مکالمہ، بصیرت اور قومی اتحاد۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی یونیورسٹیوں میں موجودگی اِس بات کا ثبوت ہے کہ آج کی جنگ صرف بارڈر پر نہیں، کلاس رومز، لیبز، اور سوشل میڈیا پر بھی لڑی جا رہی ہے۔ پاکستان کا دفاع صرف جغرافیہ کا نہیں، بیانیے کا بھی ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:”تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے، وہ اسے ہاتھ سے روکے، اگر نہ کر سکے تو زبان سے، اور اگر اس کی بھی ہمت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔”(صحیح مسلم)
ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ قدم ایک قومی خدمت ہے، ایک اسلامی فریضہ ہے ،سچ کا پرچار اور جھوٹ کی مزاحمت۔ یہ صرف ایک مہم نہیں بلکہ ایک تاریخ ساز لمحہ ہے، جہاں دلیل، مکالمہ اور حکمت کے ساتھ پاکستان کا دفاع کیا جا رہا ہے۔”
اور کہہ دو: سچ آ گیا اور جھوٹ مٹ گیا، بے شک جھوٹ مٹنے ہی والا ہے۔”(سور بنی اسرائیل، 17:81)
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی قیادت اور بصیرت قابلِ تحسین ہے۔ جب سب خاموش تھے، وہ بولے۔ جب فکری میدان خالی تھا، انہوں نے علم اٹھایا۔ ان کا نوجوانوں سے تعلق ایک رسمی فریضہ نہیں بلکہ ایک فکری مشن ہے۔تاریخ اسے وہ لمحہ مانے گی جب پاکستان کے دفاع میں صرف بندوق نہیں، بلکہ قلم، زبان اور شعور بھی اٹھے اور ڈی جی آئی ایس پی آر اس فکری محاذ پر ایک نڈر، باشعور اور باایمان سپاہی کی طرح ابھرے۔
یہ محض ایک سرکاری مہم نہیں، ایک فکری محاذ ہے جس پرلیفٹیننٹ جنرل احمد شریف جیسے باوقار اور بیدار مغز سپاہی اپنی بصیرت، بردباری اور دلیل کے ہتھیاروں سے صف آرا ہیں۔ ان کا نوجوانوں سے مکالمہ، پاکستان کے فکری دفاع کی ایک نئی جہت ہے۔ آج جب نظریاتی یلغار ہر جانب سے ہو رہی ہے، جنرل صاحب کی یہ کاوشیں اس چراغ کی مانند ہیں جو اندھیروں میں امید کی روشنی دیتا ہے۔ ان کے الفاظ میں قومی درد بولتا ہے۔
اقبال نے کہا تھا : جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف یہی سوز جگر لیے جوانوں کے دلوں پر دستک دے رہے ہیں۔