سرکاری ملازمت کے دوران کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ایک بار ملنے کے بعد دوسری بار دیکھنے کو بھی دل نہیں کرتا جبکہ انکے برعکس بہت سے لوگ ایسے ہیںجنہیں ملنے کے بعد خوشی کا اظہار ہوتا ہے اور پھر ملاقات کی خواہش پیدا ہوتی ہے اورپھر ان میں سے چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں پہلی ملاقات میں ہی انسان دل دے بیٹھتا ہے وجہ انکا اخلاق ،پیار ،محبت ،خلوص اور سامنے والی کی مشکلات کو ختم کرنا ہوتا ہے نہ کہ آنے والے کو خوبصورتی سے ٹرخا دیا جائے ابھی کل ہی محکمہ اطلاعات پنجاب سے ریٹائر ہونے والے ڈائریکٹر تعلقات عامہ ناظم الدین بھی ان تمام خصوصیات کے مالک تھے جن سے ملنے کے بعد کبھی احساس ہی نہیں ہوتا تھی کہ ہم کسی نخرے والے افسر سے ملے ہیںیا اندر باہر سے خوبصورت اور پیارے انسان سے ملکر آرہے ہیں ناظم الدین کبھی بھی کسی ایسے عہدے پر نہیں رہا کہ جو کسی دوست کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہو لیکن اسکے باوجود ان سے سبھی پیار کرتے تھے وہ بھی بغیر کسی لالچ اور مفاد کے کیونکہ اسکا بھی رویہ سبھی صحافیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا ناظم الدین نے اپنی نوکری کا حق ادا کردیا بلکہ انہوں نے اس محکمہ کے ہر پی آر او کے لیے بھی ایک نئی راہ متعین کردی ایک ہفتہ میں انکی تین یا چار تحریریں اخبارات میںچھپنے کےلئے آتی رہتی تھی جنہیں پڑھ کر نہ صرف ہم جیسے بے خبر صحافیوں کو حکومت کے نیک چال چلن کا علم ہوتا رہتا تھا بلکہ عا م لوگوں تک بھی نہایت ہی اچھے اور احسن انداز میں حکومت کے کاموں کاپیغام پہنچتا رہا تھا امید ہے ناظم الدین اپنی مدت ملازمت سے ریٹائر منٹ کے بعد بھی محکمہ کےلئے قیمتی اثاثہ ثابت ہونگے ایمانداری اور محنت کے ساتھ اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہونا سرکاری ملازم کیلئے باعث فخر اور عزاز کی بات ہے ایسے ملازمین کسی بھی ادارے یا محکمے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جو اس ادارے کا نظام احسن طریقہ سے چلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور تعلقات عامہ سے وابستہ افراد ساری عمر دوسروں کو مفیدمعلومات پہنچاتے رہتے ہیں جو کبھی ریٹائر نہیں ہوتے اور بلا شبہ ادارے کو ترقی دینے اور محکمہ میں تحقیقی کام کو آگے بڑھانے میں ناظم الدین نے بہت نمایاں کردار ادا کیا اور انکی خدمات کو تا دیر یاد رکھا جائیگامحکمہ تعلقات عامہ ایک ایسا ہی ادارہ ہے جو عام لوگوں سے لیکر خاص افراد تک براہ راست اثر انداز ہوتا ہے اس محکمہ میں بہت سے خشک مزاج لوگ بھی ہیں جن میں ڈائریکٹر نیوز قدرت اللہ سرفہرست ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو اس محکمہ سے کسی اور محکمہ میں بھیج دینا چاہیے جبکہ یہ محکمہ تو ہر آنے والے کو گلے لگانے کےلئے یہ ہی وہ محکمہ ہے جو پنجاب حکومت کا چہرہ ہے اگر اس ادارے میں بیٹھے ہوئے بے زار قسم کے لوگ ہونگے تو حکومت بھی انہی کی طرح سخت گیر قسم کی نظر آئے گی خیر اس پر تفصیلی بات پھر کبھی ابھی تو اس محکمہ سے جانے والوں کا ذکر کررہا ہوں جنہوں نے خوبصورتی سے پنجاب کے خوبصورت رنگوں کو نہ صرف پنجاب تک پہنچایا بلکہ پاکستان کا حسین چہرہ پوری دنیا کو دکھایا ان میں نمایاں نام ملک محمد حسین، اکرم شہدی ، شعیب بن عزیز،خواجہ طاہر جمیل ،آغا اسلم ، اطہر علی خان،ارشد سعید ،امجد بھٹی ،ڈاکٹر اسلم ڈوگر،چوہدری امجد ،عبدالروف ،اخلاق علی خان اور ناظم الدین ہیں یہ سبھی وہ لوگ ہیںجنکا اوڑھنا بچھونا تعلقات عامہ ہی رہا ان سبھی خوبصورت کردار اور اخلاق کے لوگوں کو آج بھی اسی شدت سے یاد کیا جاتا ہے جتنا دوران ملازمت انہیں یاد کیا جاتا تھا وہ بھی اچھے لفظوں میں ان میں سے کچھ تو بہت ہی اچھے لوگ تھے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو اس محکمہ میں آئے اور خدمات سرانجام دیکر چلے گئے لیکن ابھی وہ ملازمت میں ہیں اس لیے انکا نام نہیں لونگا ابھی بات کررہا ہوں ایسے افراد کی جو اس محکمہ میں اپنی زندگی کے 60قیمتی سال دیکر عزت و احترام سے رخصت ہوئے اس محکمہ میں کام کرنے والے سبھی اپنی اپنی جگہ خوبصورت کام کررہے ہیں بلخصوص ابھی حال ہی میں ڈائریکٹر پرموٹ ہو کر آنے والے بھی کمال کے انسان ہیں آگے چل کر ان میں بھی اگر افسری وڑھ (سما) گئی تو پھر اس ادارے کا اللہ ہی حافظ ہے پہلے ہی یہ ادارہ اپنی ساکھ کہیں کھو چکا ہے خاص کر اشتہارات کے حوالہ سے جو کرپشن کی کہانیاں جومنظر عام پر ہیں بدنام زمانہ سابق ڈائریکٹر مجید شاہد کی بدولت کچھ نیک نام افسران ابھی تک اینٹی کرپشن میں انکوائریاں بھگت رہے ہیں وہ بھی اسی محکمہ کی کارستانیاں ہی تھیں موجودہ ڈی جی پی آر روبینہ افضل اس داغ کو دھونے میں کسی حد تک کامیاب تو ہوئی ہیں لیکن پھر بھی بدنامی کا جو داغ ایک مرتبہ لگ جائے وہ کلنک کا ٹکہ بن جاتا ہے اور مثال کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے خیر اس پربھی پھر کبھی تفصیلی لکھوں گا فلحال تو اس محکمہ کے قابل سپوتوں کا ذکر نا ضروری سمجھتا ہوں جن کی وجہ سے اس محکمہ کا تشخص ابھی تک قائم ہے یہ محکمہ پنجاب کا واحد محکمہ ہے جو کسی دور میں سب سے طاقتور سمجھا جاتا تھالیکن کچھ ناہنجار قسم کے لوگوں کی وجہ سے یہ محکمہ اپنی حیثیت کھو بیٹھا جسے دوبارہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا چاہیے صاف شفاف آئینے پر دھند آنے کی وجہ سے حکومت کا چہرہ بھی صاف نظر نہیں آرہاامید ہے کہ نئے آنے والے سیکریٹری دانیال گیلانی اس آئینے کو صاف کرنے میں اپنی پوری کوشش کرینگے وہ نہ صرف اس محکمہ کی خوبیوں اور خامیوں کو بہتر سمجھتے ہیں بلکہ ایک انقلابی ذہن رکھنے کی وجہ سے اس میں اہم تبدیلیاں بھی ضرور کرینگے ویسے تو انہیں اس وقت بے شمار مسائل کا سامنا ہے صرف ڈی جی پی آرکو ہی نہیں دیکھنا بلکہ ساتھ میں الحمرا کا گند بھی صاف کرنا ہے اور پلاک کے انتظامات کو بھی دیکھنا ہے پنجابیوں کا ترجمان اور پنجاب کا فخر ایف ایم 95پنجاب رنگ جو عرصہ دراز سے بند پڑا ہوا ہے اسے بھی دوبارہ بہتر رنگ میں شروع کرنا ہے کیونکہ ایف ایم 95پنجاب رنگ کا بند ہونا ایسے ہی ہے جیسے پنجاب کی آواز بند ہوچکی ہے اس آواز کو دوبارہ ایسے ہی شروع ہونا چاہیے جیسے ڈاکٹر صغراں صدف نے شروع کیا تھا یہ پنجاب رنگ نہ صرف ریڈیو پر اپنے رنگوں کا جادو جگاتا تھا بلکہ یوٹیوب ،فیس بک اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پنجاب کے پنجابیوں کا خوبصورت کلچر متعارف کروارہا تھا امید ہے دانیال گیلانی اپنی جادوئی چھڑی سے ان سب مسائل کو پلک جھپکنے میں نہیں تو پلکیں بند ہونے سے پہلے ضرور حل کردینگے ۔