ہندوستان متعدد سیاسی ،مذہبی،اور معاشی وجوہ کی بنا پر خود اپنے ہی ملک میں باہر سے آئے تاجر نما سازشیوں کا شکار ہوا۔بنیادی وجہ باہمی افتراق تھا اور واقعہ یہ ہے کہ مقامیوں میں باہم افتراق و آویزش کی کاشت انگریزوں نے بڑی ڈھٹائی اور مکاری کے ساتھ کی تھی۔مارکس نے اس سوال کو ہمیشہ اہمیت دی کہ آخر کس طرح مٹھی بھر انگریزوں نے ہندوستان جتنے بڑے اور پیچیدہ ملک اور تمدن کو زیر کر لیا،اور پھر بڑی ”تاریک حکمت عملی” سے ایسے تمام مقامی ادارے، مفاخر، تعلیم، صنعت،تجارت اور ریت رسم رواج کو زیر و زبر کردیا، جو کبھی ہندوستان کی مخلوط معاشرت کا سرمایہ افتخار رہے تھے۔یہ درست ہے کہ مغل اقتدار کے کمزور پڑتے ہی سلطنت انتشار کا شکار ہوئی،لیکن اس سیاسی اور عسکری انتشار نے ہندوستان کی مخلوط دانش اور اجتماعی بصیرت کو ختم نہیں کیا تھا۔کارل مارکس نے اپنے کسی بھی تجزے میں اس پہلو کو نظر انداز کیاہے۔جس مذہبی افتراق کو انگریز نے ہندوستان کےلئے ڈیزائن کیا،اور پھر پوری ریاستی طاقت کے ساتھ مخلوط معاشرے کی سیکولر بنیادوں کو مسمار کر کے تقسیم در تقسیم کے عمل کے ثمرات کی بنیاد پر اپنے تسلط کو دوام دیا ، ان میں سے چند ایک پر تو مارکس نے بحث پیش کی ہے،لیکن متعدد کو نظر انداز بھی کیا ہے یا قابل اعتناءخیال نہیں کیا۔اس دور انتشار میں،جس کا مارکس کے مضامین احاطہ کرتے ہیں اس میں ہندوستانیوں کی سماجی ، سیاسی اور معاشی دانش اور بصیرت کی نمائندگی یہاں کے باکمال شعراءکرتے دکھائی دیتے ہیں۔کارل مارکس کی ولادت سے آٹھ سال قبل وفات پا جانے والے ہندوستان کے عالی رتبہ شاعر میر تقی میر کا یہ شعر کسے یاد نہیں کہ؛
امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہیں کی دولت سے
سماجی و معاشی بصیرت اور طبقاتی تفاوت کے گہرے احساس سے لبریز اس ایک شعر سے یہاں کے لوگوں کے شعور کی برتر سطح کا اندازہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کی مخلوط معاشرت سیاسی طور جتنی غیر مستحکم کیوں نہ رہی ہو، شعور و ادراک کے میدان میں کبھی بھی تہی دامن نہیں رہی۔اس عہد کی مقبول صنف ادب شہر آشوب اسی انتشار و افتراق کا نقشہ مرتب کرکے پیش کرتی ہے۔کارل مارکس کے معاصرین میں مرزا غالب، سرسید احمد خان اور دیگر نے معاصر سیاسی ، سماجی اور خاص طور پر معاشی ابتری کی وجوہ کو تلاش کیا اور بحث و تجزیے کا عنوان بنایا۔ مارکس بارہ سال کے تھے جب نظیر اکبر آبادی کا انتقال ہوا۔ لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ؛ نظیر اکبر آبادی کا سماجی اور معاشی شعور اپنے کسی بھی معاصر انگریز یا امریکی شاعر سے کہیں برتر نظر آتا ہے۔ مارکس سے آٹھ برس پہلے وفات پانے والے میر تقی میر کے شعر کا ابھی ذکر ہوا۔ان کے اور ان کے معاصرین کے شہر آشوب اپنے عہد کے انتشار کی تاریخ دکھائی دیتے ہیں۔اس عہد کی ایک اور شناخت معاشرے کی سیکولر بنیادیوں کا مستحکم ہونا ہے۔کارل مارکس ہندوستان کی تاریخ کا تجزیہ کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے: ”… اس(ہندوستان) کے ماضی کے متعلق بھی اگر کوئی تاریخ موجود ہے تو وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں بتاتی کہ یہ ملک مسلسل دوسروں کا غلام بنتا آیا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ہندوستان کی اپنی تاریخ موجود ہی نہیں۔ دراصل،اس کی تاریخ مختلف حملہ آوروں کی تاریخ ہے،جنہوں نے اس بے جان اور نہ تبدیل ہونے والے سماج کی بنیادوں پر اپنی سلطنتیں قائم کیں۔ لہٰذا سوال یہ نہیں کہ انگلستان کو ہندوستان کے فتح کرنے کا حق حاصل تھا یا نہیں؟ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ اچھا ہوتا اگر ہندوستان کو انگریزوں کی بجائے ترک ایرانی یا روسی فتح کر لیتے۔؟۔۔” (ص105)مارکس کا یہ تاثر درست معلوم نہیں ہوتا کہ”ہندوستان کی اپنی تاریخ موجود ہی نہیں۔ دراصل،اس کی تاریخ مختلف حملہ آوروں کی تاریخ ہے ”یہ معلومات نامکمل اور ہندوستان کی قدیم تاریخ سے ناواقفیت یا عدم توجہی کی طرف اشارہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ہندوستان کے دیگر فاتحین اور انگریزوں میں بنیادی فرق و امتیاز یہ رہا کہ انگریزوں کا مطمع نظر صرف غصب اور لوٹ مار رہا۔انہوں نے یہاں کے ذہین لوگوں کے ساتھ رہنے کی ہمت نہیں پائی۔دیگر فاتحین نے ہندوستان کو اپنا مقبوضہ علاقہ نہیں،بلکہ اپنا ملک بنا لیا۔مارکس نے اپنے تجزیات میں اس پہلو کو انجانے میں،یا جان بوجھ کر نظر انداز کیا ہے۔یاد رکھنا چاہیئے کہ دیگر فاتحین نے جو کچھ بھی بنایا ہندوستان ہی میں بنایا،وہ ہندوستان کی دولت اپنے آبائی وطن لے کر نہیں بھاگے۔جیسا کہ انگریزوں نے کیا۔اور حیرت ہے کہ وہ اب بھی خود کو اخلاقی طور پر مضبوط قیاس کرتے ہیں۔ اگرچہ انگریز ہندوستان کے غیر محفوظ ساحلوں کی وجہ سے قبضہ جمانے میں کامیاب ہوئے، لیکن وہ ہندوستان کے دیگر فاتحین کے زمینی راستوں کی اہمیت سے لاعلم یا غافل نہیں تھے۔مارکس کے اس مضمون کے قریباً77سال بعد بھی،جبکہ ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ تاج برطانیہ لے چکا تھا اور ہندوستان کے کنویں سے ممکن حد تک پانی نکال چکا تھا،اور اب نوبت ہندوستان کے آئینی حقوق تک پہنچ چکی تھی،تو سائمن کمیشن رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال نے اپنے معروف خطبہ الہ آباد میں دلچسپ نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ایک عجیب بات یہ ہے کہ سائمن کمیشن رپورٹ میں ہندوستان کی بری سرحدوں کو تو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے،لیکن اس کے بحری تحفظ کے متعلق صرف سرسری اشارات کئے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کے موجودہ حاکم اس کے غیر محفوظ سواحل کی وجہ سے اس پر قابض ہوئے تھے۔ ایک آزاد اور خود مختار ہندوستان کےلئے ازبس ضروری ہے کہ وہ خشکی کی بجائے اپنی بحری سرحدوں کی زیادہ حفاظت کرے ۔” ( اقبال ، خطبہ الہ اباد، ص40،41) تو 1853ءمیں بھی ہندوستان میں انگریز کی دفاعی حکمت عملی کا محور شمال مغربی سرحدیں ہی تھیں،کہ اس کے آئیندہ صدی کے محاربے روس کے ساتھ متوقع تھے۔اگرچہ مارکس کی مضمون نویسی کا زمانہ 1853ءکا ہے اور ابھی ہندوستان ایسٹ انڈیا کمپنی کا کھلونا بنا ہوا تھا۔یہ وہی ایسٹ انڈیا کمپنی تھی،جس کے بارے میں مارکس لکھتا ہے کہ ” دو ہزار نفوس جن میں معمر خواتین اور کچھ مریض قسم کے شرفاءشامل ہیں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے حصوں کے مالک ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ ان کو صرف اتنی دلچسپی ہے کہ وہاں کے محاصل میں سے ان کے حصوں پر منافع ملتا رہے۔”(ص 87)اس ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذمہ داران کی طرف سے ہندوستان کا تمام تر ریاضیاتی بندوبست صرف اور صرف تقسیم در تقسیم کے فارمولے پر استوار کیا گیا تھا۔ہاں یہ تاثر درست ہے کہ ہندوستان کے فاتحین اپنی تاریخ ساتھ لے کر آئے،لیکن جب وہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ ”…ہندوستان کے مختلف حملہ آور مثلا عرب، ترک، تاتار، اور مغل بہت جلد بندوستانی تمدن میں گھل مل گئے۔ ان کے مفتوحوں کی بہتر تہذیب نے تاریخ کے لازوال قوانین کے مطابق ان کے وحشیانہ طرز تمدن کو مغلوب کر لیا۔انگریز ہندوستان کے پہلے فاتح تھے۔ جن کا تمدن اپنے غلام ملک کی تہذیب سے بہتر تھا۔ لہٰذا ہندوستانی تہدیب ان کو مغلوب نہ کر سکی۔”(ص107) تو یہ سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگتی کہ؛اگر مفتوحوں کی تہذیب نے اپنے مختلف حملہ آوروں کے وحشیانہ تمدن کو مغلوب اور جذب کر لیا تھا، تو پھر لازم ہے کہ اس قدر برتر اور مضبوط و مستحکم تہذیب و تمدن پیدا کرنے والا ملک اپنی شاندار اور مفاخر سے بھری تاریخ بھی رکھتا ہو، یہ منطق کا سیدھا سادہ اصول ہے کہ کوئی شے یا قدر بھی ہوا میں پیدا نہیں ہو جاتی، اس کا ایک سلسلے وار اور مرتب پس منظر بھی ہوتا ہے، جسے جاننے یا کھوجنے کی کوشش مارکس نے نہیں کی۔ جہاں تک مارکس کے اس تاثر کا تعلق ہے کہ انگریز ہندوستان کے پہلے فاتح تھے جن کا تمدنی ہندوستان سے بہتر تھا لہٰذا ہندوستانی تہذیب اسے مغلوب نہ کر سکی، محل نظر دکھائی دیتا ہے ۔ شاید مارکس کی مراد یہ رہی ہو کہ انگریز ہندوستان کے پہلے فاتح تھے جن کا سامان حرب اور اسلوب جنگ ہندوستانیوں سے برتر اور جدید تھا۔مارکس کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیئے تھی کہ دیگر فاتحین کی طرح انگریز گھوڑے کی بے چین پیٹھ پر سوار ہوکر ہندوستان میں وارد نہیں ہوئے تھے، اس کے عوض وہ بھاپ سے چلنے والے بحری جہازوں پر سوار ہو کر ہندوستان کے غیر محفوظ ساحلوں پر اترے تھے۔جن کو آنے والے سالوں میں بھی انگریزوں نے ”غیر محفوظ” ہی رکھا تھا کہ؛ان کی اپنے آبائی وطن آمد و رفت انہی ساحلوں سے ہوتی تھی۔یقینی طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے منافع خور اور سرمایہ پرست انگریز ہندوستان پر اپنی ارفع تہذیب یا اعلیٰ اخلاقی اقدار(جیسا کہ کارل مارکس نے تاثر دیا ہے) کے باعث نہیں بلکہ صرف اپنی بہتر اور برتر عسکری صلاحیت کی وجہ سے غالب آئے تھے۔آنے والی صدی میں بھی ہندوستان کو تلوار کے مقابلے میں”برتر بندوق”اور گھوڑے کی پیٹھ کے مقابلے میں بھاپ کے انجن سے چلنے والی برق رفتار ریل نے زیر کیے رکھا۔اس طرز عمل اور تجربے نے اس خطے میں عسکری دھونس کو نفسیات عامہ کا ایک لازمی حصہ بنا دیا۔مارکس جب بتاتا ہے کہ ” دو ہزار نفوس جن میں معمر خواتین اور کچھ مریض قسم کے شرفاءشامل ہیں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے حصوں کے مالک ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ ان کو صرف اتنی دلچسپی ہے کہ وہاں کے محاصل میں سے ان کے حصوں پر منافع ملتا رہے۔” تو زمانہ حال کے قریباً اتنے ہی مریض قسم کے شرفاءاور معمر خواتین کی طرف خیال چلا جاتا ہے،جو ریاست و سیاست پر اکیسویں صدی کی ایسٹ انڈیا کمپنی بن کر سواری کر رہے ہیں۔ان کا مقصود و مطلوب اپنے منافعے اور مفادات کا تحفظ ہوتا ہے،اور بس۔دوسری اہم بات یہ کہ کسی بھی کثیراللسانی، کثیر الثقافتی اور مختلف و متنوع مذاہب کے حامل معاشرے کے اتحاد و اتفاق اور مخلوط طرز معاشرت کو غارت کئے بغیر اسے غلام نہیں بنایا جا سکتا۔انگریزوں نے ہندوستان میں یہی کچھ کیا اور صدیوں ایک ساتھ رہنے والوں کو ایک دوسرے سے بے زار کر دیا۔چلیئے؛ یہ تو تاریخ تھی،لیکن جب اسی پرانے فارمولے کو ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے بیچ افتراق و انتشار کےلئے استعمال کیا جاتا ہے تو حیرت اور افسوس ہوتا ہے۔پاکستان میں صرف مسلمان ہونا کافی خیال نہیں کیا جاتا، ایک مسلمان کو اپنا ”برانڈ” بھی بتانا پڑتا ہے۔اس طرز عمل سے جس طرح انگریزوں نے پوری ریاستی طاقت کے ساتھ مخلوط معاشرے کی سیکولر بنیادوں کو مسمار کر کے تقسیم در تقسیم کے عمل کے ثمرات کی بنیاد پر اپنے تسلط کو دوام دیا تھا،بالکل اسی طرز پر اکیسویں صدی کی ایسٹ انڈیا کمپنی مخلوط معاشرت کو مسمار کر کے اپنے کاذب تسلط کو دوام دینے کوشاں ہے۔
کالم
کارل مارکس کی ہندوستان شناسی
- by web desk
- جولائی 13, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 643 Views
- 2 سال ago