کالم

کب تک دنیا کے آگے ہاتھ پھیلاتے رہیںگے؟

idaria

پاکستانی معیشت اپنی تاریخ کی برے ترین دنوں سے گزررہی ہے کہ ہم ” بکنے کو تیار ہیں اور خریدار نہیں“ یعنی ہم دنیا بھر میں قرضہ لینے کیلئے بھاگ دوڑ کررہے ہیں اور کوئی ملک ہمیں سود پر ادھار دینے کیلئے تیار نہیں ، اسی حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف دورہ فرانس پر ہیں جہاں وہ اپنے ملک کے حالات کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں ، کیا یہ اچھا ہوتا کہ ملک کا پیسہ لوٹ کر کھاجانے والوں کا سخت اور کڑا احتساب ہوتا جس کے نتیجے میں ہمیں کشکول اٹھاکر دنیا بھر میںرسوا نہ ہونا پڑتا بلکہ اپنے وسائل سے ہی قومی خزانہ بھر لیا جاتا ، سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان نے چارج سنبھالتے ہی سعودی شاہی خاندان کے کچھ شہزادوں کو گرفتار کرکے حکومتی تحویل میں رکھا ، ان شہزادوں پر الزام تھا کہ یہ ملکی وسائل لوٹنے میں ملوث رہے ہیں ، نتیجتاً ان مشتبہ شہزادوں سے اربوں ڈالر لے کر واپس قومی خزانے میں جمع کرا دیئے گئے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نظام میں اس قدر سقم میں موجود ہے کہ ہر ادارے میں چور بیٹھے ہیں اور احتساب کرنے کی جرا¿ت کسی کو نہیں ، اگر ہم اپنی فضول خرچیوں پر بھی قابو پالیں تو بھی قرضوں کیلئے ہمیں یوں دربدر نہ جھکنا پڑے ۔ گزشتہ روزوزیر اعظم نے دورہ فرانس کے دوران عالمی معاشی صورتحال سے نمٹنے کیلئے مالیاتی اقدامات بارے "نیو گلوبل فنانسنگ پیکٹ سمٹ” سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ سمٹ کے بہترین انعقاد پر فرانسیسی صدر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث گزشتہ سال تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، 33لاکھ افراد گھروں سے محروم اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، سیلاب سے 20لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے، سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے کروڑوں ڈالر خرچ ہوئے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے ۔ نیزفرانس کے دورہ پر پیرس میں موجود وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات کی۔ملاقات میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری پروگراموں اور تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے 27 مئی کی ملاقات کا بھی تذکرہ کیا، انہوں نے ایم ڈی آئی ایم ایف کو حکومت کے معاشی ترقی اور استحکام کےلئے اقدامات سے آگاہ کیا۔اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے پر عزم ہے۔ نیزوزیراعظم شہباز شریف نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی،دونوں رہنماﺅں کے درمیان ملاقات نئے عالمی مالیاتی معاہدے کے تحت سربراہی اجلاس کے موقع پر ہوئی، ملاقات کے دوران وزیراعظم نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کےلئے نیک تمناﺅں کا اظہار کیا،شہزادہ محمد بن سلمان نے حکومت پاکستان اور عوام کےلئے خیرسگالی جذبات کا اظہار کیا،دونوں رہنماﺅں نے دوطرفہ تعاون کے فروغ کےلئے اشتراک عمل مزید بڑھانے پر اتفاق کیا، دونوں رہنماﺅں نے باہمی دلچسپی امور پر تبادلہ خیال بھی کیا ۔نیز وزیراعظم نے فرانسیسی صدر ایمیانیول میکرون سے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے نئے عالمی مالیاتی معاہدے پر سربراہی اجلاس بلانے پر فرانسیسی صدر کو خراج تحسین پیش کیا۔وزیراعظم نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کا پرتپاک خیرمقدم کیا اور نیک تمناﺅ ں کا اظہار کیا ۔سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے سیلاب متاثرین کی بحالی کےلئے وزیراعظم اور ان کی حکومت کے جذبے کو سراہا ۔ بلاشبہ ماحولیاتی تبدیلی دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے جس کےلئے مشترکہ حکمت عملی اور کوششیں درکار ہیں، ماحولیاتی مسائل خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کی ترقی اور شرح نمو کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ شدید معاشی مشکلات میں اکتوبر 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے مسائل کا حل مزید مشکل بنا دیا۔ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کی شرح نمو پر پڑنے والے منفی اثرات سے نکلنے میں مدد کیلئے خصوصی کردار ادا کریں۔نئے عالمی مالیاتی معاہدے کےلئے پیرس سربراہی کانفرنس ترقی پذیر ممالک کےلئے امید کا پیغام ہے، ترقی پذیر ممالک کو وسائل کی فراہمی کیلئے عالمی مالیاتی ڈھانچے میں اصلاح ضروری ہے۔
ملک بھرمیں گرمی کی شدیدلہراورلوڈشیڈنگ
پاکستان میں موجود عام آدمی کو نہ صرف گرمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کہ بلکہ الٹا لوڈشیڈنگ نے جینا دوبھر کررکھا ہے جو حکومتی نالائقیوں کا واضح اور منہ بولتا ثبوت ہے ، کیا دلچسپ بات ہے کہ ہم نے بغیر وسائل کے ایٹم بم تیار کرلیا مگر تمام تر وسائل ہونے کے باوجود بجلی تیار نہیں کرسکے کیونکہ اس میں کوئی اخلاص کا پہلو نظر نہیں آتا کیونکہ بالادست طبقہ اس لوڈشیڈنگ کا فائدہ اٹھاکر اپنے بجلی کے جنریٹر ، یو پی ایس اور سولر پلٹیں بیچنے میں مصروف ہیں اور عوام کو بجلی کے عذاب میں مبتلا کرکے ان کی جیبوں سے پیسے نکالنے میں لگا ہوا ہے ، پاکستان میں دریا ،ہوا اور سورج کی مدد سے بجلی تیار کرکے پانچ ، چھ ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال پورا کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے مگر پاکستانی عوام کو جان بوجھ کر لوڈشیڈنگ کے عذاب سے گزارا جارہا ہے ، اخباری اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں گرمی بڑھتے ہی طویل لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10گھنٹے سے 12گھنٹوں تک پہنچ گیا، بجلی کا شارٹ فال 6ہزار 160میگا واٹ ہوگیا۔ بجلی کی مجموعی پیداوار 20ہزار 540 میگاواٹ ہے جبکہ ملک بھر میں بجلی کی طلب 26ہزار 700میگاواٹ ہے۔ ملک بھر میں 10گھنٹے سے بارہ گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ کئی تقسیم کار کمپنیوں کے اوور لوڈڈ ٹرانسفارمرز جواب دے گئے، شہروں کے مختلف علاقوں میں ٹرانسفارمرز جلنے اور دیگر تکنیکی خرابیوں کے باعث گھنٹوں بجلی بند رہنا معمول بن گیا ہے ۔ادھر سبی میں دن کے وقت درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ ہوا۔ شدید گرمی اور لو کی وجہ سے متعدد لوگوں کی حالت غیر ہوئی۔گرمی کے باعث دو درجن سے زائد افراد کو اسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے دو انتقال کرگئے جبکہ بیس کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔ عوام گرمی کے دوران دن کے اوقات میں غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلیں اور اگر مجبوری ہوتو سر اور جسم کو ڈھانپ کر نکلیں، جبکہ پانی اور نکمیات کو برقرار رکھنے کےلئے زیادہ سے زیادہ او آر ایس کا استعمال کریں۔
مودی کے دورہ امریکہ نے بھارتی جمہوریت کا پول کھول دیا
بھارتی دنیا بھر میں انسانی حقوق کی حق تلفیوں پر بے نقاب ہوتے رہتے ہیں ، بھارتی وزیر اعظم ان دنوں امریکہ کے دورے پر ہے ، اس حوالے سے مودی کے دورہ امریکہ نے نام نہاد بھارتی جمہوریت کا پول کھول دیا، امریکی سینیٹرز، کانگریس رہنما، انسانی حقوق، مذہبی اور صحافتی آزادی کی تنظیموں کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آیاہے ، گزشتہ روز 75سے زائد امریکی سینیٹرز اور کانگریس اراکین نے بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر صدر بائیڈن کو خط لکھا تھا ۔کانگریس رکن رشیدہ طلائب اور الہان عمر نے مودی کے کانگریس سے خطاب کو امریکی تاریخ کا شرمناک باب قرار دیتے ہوئے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا، 15جون کو سی جے پی نے بھی امریکی حکومت سے بھارت میں بگڑتی صحافتی صورتحال پر مذمت کا مطالبہ کیا تھا ، صدر سی جے پی جوڈی گینز برگ نے کہا کہ مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں صحافت اور صحافیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں، تنقید کرنےوالے صحافیوں کو غیر قانونی حراست کا سامنا کرنا پڑتا ، 19جون کوایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے واشنگٹن میں مودی پر بنی بی بی سی کی ڈاکومنٹری بھی نشر کی تھی جبکہ ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈائریکٹر نے بھی صدر بائیڈن کو مودی کےساتھ انسانی حقوق کی پامالیوں کا معاملہ اٹھانے کا مطالبہ کر رکھا ہے ۔دیگر بھارتی تنظیموں نے مودی کے واشنگٹن دورے کے دوران شدید احتجاج کا اعلان بھی کر رکھا ہے، مارچ 2023ءمیں بھی امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تھا ، گزشتہ سال مودی کیخلاف ڈاکومنٹری نشر کرنے پر بی بی سی انڈیا کے دفاتر پر بھی چار روز تک چھاپے مارے گئے تھے ، 2020ءمیں بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شدید حکومتی دباﺅ کے مدِ نظر بھارت میں کام بند کر دیا تھا ، 2014ءسے مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق بھارت140سے161ویں نمبر پر گر چکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے