انسان کی سب سے موثر، مفید اور ساتھ ہی ساتھ خطرناک ایجاد سرمایہ ہے ۔ سرمائے کی مذمت ایک منافع بخش کاروبار بھی ہے ، گویا اس کی مذمت اور مخالفت سے بھی ، بالآخر سرمایہ ہی جنم لیتا ہے۔یہ جاننے کے باوجود کہ پاکستان کے دوسری اور تیسری پیڑھی کے بزعم خود، بائیں بازو کے انقلابی دانشور اور دانش جو اقبال کو اسی نظر سے دیکھتے ،سمجھتے اور طعن و تنقید کا نشانہ بناتے ہیں،جس نظر سے یہاں کے ملا اقبال کو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ تو پاکستان کے خود رو ترقی پسندوں کی بات تھی ،جو اصل ترقی پسند تھے ،وہ اقبال کی فکری مساعی کے معترف اور مداح تھے ۔وہ سید سجاد ظہیر ہوں یا اختر حسین رائے پوری، وہ فیض احمد فیض ہوں یا سید سبط حسن،سبھی اقبال کو سمجھنے پر آمادہ و تیار اور فکر اقبال کو ملاں کی تحویل میں دینے کے مخالف تھے۔ہندوستان کے ترقی پسند پاکستانیوں سے زیادہ زیرک ، منصف مزاج اور عملی دانشمند ثابت ہوئے، انہوں نے اقبال کی مساعی کو نہ صرف سراہا بلکہ اس کے ڈکشن سے لے کر خیال تک کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ۔شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ہندوستان کی نظریاتی سلامتی کو اقبال کی ترقی پسند فکر سے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا جبکہ پاکستان میں تو انسانی آزادی ، انسانی مساوات اور انسانی یکجہتی کے وعدے پر قائم ہونے والی عملی ریاست کو گلے سے پکڑ کر پہلے نظریاتی بنایا گیا ،اس کے بعد ، اس کے بعد ملاو¿ں نے ابھی تک پاکستان کے گلے سے اپنے دانت نہیں ہٹائے ۔ بہر حال، اقبال سرمائے کی افادیت کو سمجھتے تھے، لیکن سرمائے کی پرستش اور سرمائے کے حصول کےلئے انسانیت کی تذلیل کےخلاف تھے ۔وہ بندہ مزدور کے دست کار آفریں کی مرکزیت کے قائل اور سرمائے کے تصرف اور مصرف پر بندہ مزدور کے حق کے حامی تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ولادیمیر لینن کی طرف سے خدا کے حضور یہی استفسار پیش کیا تھا کہ؛کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟وہ سرمائے کی اہمیت و افادیت سے آگاہ مگر پرستش کے خلاف تھے ۔ سرمایہ طبعاً بے راہ رو ہوتا ہے ۔اسے اپنی بقا اور پھیلاو¿ کے لیے بے رحم ہونا پڑتا ہے۔ مجھے کبھی لگتا ہے کہ کمیونزم ،سوشلزم اور یہ اور وہ ،سب کیپیٹلزم ہی کے مارکٹنگ ٹولز ہیں ۔سرمایہ اپنی بقا اور ارتقا کےلئے انسانی زندگی اور انسانی ضروریات کے تضاد سے کھیلتا رہتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ نامی عفریت کو کس طرح قابو یا مسخر کیا جا سکتا ہے؟ یہ منزل تب آئے گی جب انسان واقعتا ایک دوسرے کو اپنے جیسا انسان ماننے پر دل و جان سے تیار ہو جائیں گے۔ پھر یہ قومیت، یہ شناخت یہ علاقائیت اور یہ ذہن انسانی پر تصورات کی حکومت سب کا خاتمہ ہو جائیگا۔مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ابھی تک ذہن انسانی نے آزاد فضا میں اولین سانس بھی نہیں لیا۔یا رکھنا چاہیئے کہ؛ اجتماعی زندگی کے تین سب سے بڑے فریب ہیں۔
اول: قومیت(رنگ ، نسل ،زبان ، علاقہ اور عقیدہ)
دوم: ریاست،سوم: حکومت
یہ ایک آہنی جال کی وہ جان لیوا تکون ہے ، جس نے انسانی مطمح نظر کو محدود و منتشر کرتے ہوئے ،کرہ ارض کے مکین انسان کو ایک دوسرے کا فریق اور رقیب بنا کر رکھ دیا ہے ۔صدیاں گزر گئیں، انسان نے بہت کچھ سیکھ بھی لیا ،لیکن یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں سکا کہ؛ دنیا بھر کے مختلف شکل و صورت اور زبان و ثقافت کے لوگ ایک ہی جیسے انسان ہوتے ہیں اور اسی لیے ایک ہی جیسے حقوق رکھتے ہیں ۔ چاہے مذہب کے نام پر ہو ، چاہے کسی خوبناک کتابی نظریے کے نام پر ،کوشش یہی رہتی ہے کہ انسانوں میں ایک جیسا ہونے کا احساس پیدا نہ ہو سکے۔ریاست ضرورت نہیں،ایک فریب کا نام ہے۔ عمومی طورپر ریاست اور اس کے شہریوں کے رشتے کی مثال پرانے زمانے کے بحری جہاز ، اور اس کی زیر آب اس منزل جیسی ہوتی ہے جہاں زنجیروں سے بندھے مزدور جہاز کا چپو چلایا کرتے تھے ۔اس مشقت کے عوض انہیں کھانا ملتا اور بیماری کی صورت میں موت ،اور پھر سمندر برد۔یہی کچھ ریاست کرتی ہے ۔میرا ماننا ہے کہ جس روز انسانوں نے قومیت اور عقیدے ،نظریے سے ماورا ہو کر انسانی آزادی ،انسانی مساوات اور انسانی یکجہتی کی منزل پا لی، ریاست نام کی زنجیر سے چھٹکارہ مل جائے گا۔انسانی مستقبل بے ریاست معاشرے کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس وقت جتنے بھی متحارب سسٹم ہیں ، سوشلزم ہو یا کیپیٹلزم ،یا پھر نظریاتی ریاست کے ڈھکوسلے ۔سبھی ریاست نامی پنجرے کے وجود پر متفق اور یک زبان ہیں۔ گویا یہ سارے آگ اور اس کے اوپر رکھے فرائی پین تک متفق ہیں، اختلاف صرف انڈا فرائی کرنے کے طریقوں پر ہے۔سرمایہ اپنی قوت خرید سے ناپا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سرمایے سے متعلق جملہ تنازعات اور محاربے قوت خرید کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کےلئے برپا کیے جاتے ہیں۔اسے اقبالسرمایہ پرستی”سے تعبیر کرتا اور اسی سرمایہ پرستی کے سفینے کے دوبنے کا منتظر رہا ۔ سرمایے کے چال چلن اور کردار کو سیدھے رستے پر رکھنے کےلئے اس کی تحویل لازم ہے۔کوئی تحویل نفرت اور حقارت کی بنیاد پر حاصل نہیں کی جاسکتی۔ہم سرمایہ نامی حسینہ کو راہ چلتے دیکھ کر سیٹیاں بھی بجاتے ہیں ، اشارے بھی کرتے ہیں ، آوازے بھی کستے ہیں ، آنکھ بچا کر چٹکی بھی کاٹ لیتے ہیں ،وہ مائل نہ ہو تو اسے الزامات سے مزین گالیاں بھی دیتے ہیں،لیکن خود کو اس کے قابل بنا کر اسے اپنانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ شاید ہمیں یہ بازار ہی میں اچھا لگتا ہے ،تاکہ ہم آسانی کے ساتھ اسے بازاری کہہ سکیں۔ سرمایہ کاروبار زندگی کےلئے لازم ہے،مسئلہ اس کی مینجمنٹ کا ہے ۔ نفرت کی بنیاد پر محبت کا کاروبار نہیں کیا جا سکتا۔ پر چونکہ ہمارے ہاں انقلاب کی خواب فروشی بھی ایک منفعت بخش کاروبار ہے ، اس کاروبار کی بنیاد بھی شدید نفرت پر استوار کی جاتی ہے ، ہمارے انقلابی انیسویں صدی کے وسط میں کیپیٹلزم کے مرکز و موجد شہر لندن میں بیٹھ کر کتاب سرمایہ لکھنے والے مخلص محقق کارل مارکس کا نام بھی اسی طرح سے بیچتے ہیں ،جس طرح ایک فرقہ پرست ملا مذہبی مشاہیر کے حوالے بیچتا ہے۔ دونوں اپنے کاروبار کو اپنا مشن یا مقصد حیات بتا کر لوگوں کو مائل اور قائل کرتے اور اپنا سرمہ نور بصربیچتے ہیں ۔یہ دوسری بات ہے کہ ؛ ان کے سرمے سے پہلی والی بصارت بھی حقارت کا روپ اختیار کر لیتی ہے ۔بس ضرورت سرمایے اور محنت کے رشتے صحیح تناظر میں سمجھنے اور اسے محنت کش کے تابع فرمان کرنے کی ہے۔اب یہاں سب سے بھاری ذمہ داری محنت کش طبقے پر عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاست اور نظریے کے نام پر خود کو اپنے ہی تراشیدہ نئے خداو¿ں کے تسلط میں دینے سے گریز کرے ۔ جب وہ اپنی جدوجہد سے قدیم بتوں کو مسمار کر رہا ہو ،اس وقت اسے یہ عزم بھی دھراتے رہنا چاہیے کہ؛ وہ خود پرستش کے لیے کوئی بت نہیں تراشے گا۔یورپ کا سماج کیپیٹلزم نے اپنی توسیع پذیر ضروریات کے تناظر میں بدلا۔وہ سماجی تغییر کسی ارفع اخلاقی یا دیگر نظریے کی بنیاد پر وقوع پذیر نہیں ہوا۔کیپٹلزم کی راہ میں جو جو رکاوٹ بن سکتا تھا ، اسے پیچھے ہٹاتے چلے گئے۔سماج پر تصرف رکھنے والے سارے بھوت پریت بھگا دیئے گئے۔ نظریات ، توہمات اور انواع و اقسام کے تصورات کا بوجھ اترا تو انسان نے آزادی کےساتھ سوچنے اور سمجھنے کی کوششوں کا آغاز کیا ۔ بہرحال ،مجھے لگتا ہے کہ اصل مسئلہ سرمایے کا نہیں ، سرمائے کی مینجمنٹ کے اختیار کا ہے ۔ کمیونزم کیپیٹلزم کا متضاد معاشی نظریہ ہے ، لیکن حیرت انگیز طور پر کیپیٹلزم اپنے متضاد نظریے کی مبارزت ہی سے زندہ اور توسیع پذیر نظر آتا ہے ۔دراصل حیات انسانی میں سرمائے کی مرکزیت کو صرف انسانی یک جہتی ، انسانی آزادی اور انسانی مساوات کے تصورات کو عملی صورت دے کر ختم کیا جا سکتا ہے ۔
کالم
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
- by web desk
- اگست 1, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 418 Views
- 2 سال ago