کالم

کر بھلا ہو بھلا

کر بھلا ہو بھلا

ہم ہر وقت دوسروں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ کبھی حکمرانوں کو کبھی اسٹیبلشمنٹ کو ، کبھی سیاستدانوں کو اور کبھی عدالتی نظام کو مطعون کرتے ہیں ۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ہم نے اپنے گریبان میں جھانکا ہو اور اپنے آپ پر تنقید کی ہو۔ دوسروں پر تنقید آسان ہے اس لئے تنقیدکرتے رہتے ہیں ۔ہمیں کئی عادات ایسی پڑ چکی ہیں جو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔روزگار کی تلاش میں سمندر کے گہرے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر جانے کی کوشش میں یا تو جیل چلے جاتے ہیں یا زندگی کی جمع پونجی لٹا بیٹھتے ہیں یا زندگی کی بازی ہی ہار جاتے ہیں ۔مگر اس ملک میں رہ کر کام کرنا پسند نہیں کرتے ۔انسانی سمگلنگ کو مافیا چلا رہا ہے ۔ سپریم کورٹ بار بھی اس مافیا کے اثرات سے محفوظ نہیں رہی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمیں قانون سے ڈر ہے نہ خوف خدا ہے۔نیکی کرنے میں ہم کتراتے ہیں ،محنت سے جی چراتے ہیں ۔ہر چیز کو ہم نے پیسہ سمجھ رکھا ہے۔ جب تک حلال کا نوالہ کھاتے کھلاتے رہے ہم غلط کاموں سے دور رہے اوراللہ سے ڈرتے رہے مگر اب ایسا نہیں۔ کیا نیکی پر ایمان نہیں رہا ؟ جبکہ نیکی کا صلہ صرف اور صرف نیکی سے ہی ملتا ہے ۔نیکی کے تناظر میں تین واقعات پیش ہیں۔پہلا برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ کا مشہور واقعہ ہے ایک بچہ بستی کے کھڑے گندے پانی میں جا گرا اور دلدل میں پھنس گیا ۔ شور ہوا تو فلیمنگ نامی بندہ اپنی جھونپڑی سے باہر نکلا بچے کو دلدل سے نکالا پانی سے اسے صاف کیا پھر وہ بچہ گھر چلا گیا ۔گھر جا کر حالات سنائے تو دوسرے روز بچے کا امیر ترین والد قیمتی گاڑی میں فلیمنگ کی جھونپڑی میں شکریہ ادا کرنے پہنچا۔ ”آپ نے میرے بیٹے کی جان پچائی ہے”۔ میں کچھ انعام دینا چاہتا ہوں جواب دیا! میں نے انسانیت کی وجہ سے بچے کی جان بچائی ۔اتنے میں اس کا بیٹا جھونپڑی سے باہر آیا ۔بزنس مین نے پوچھا کیا یہ بچہ آپ کا ہے کہا جی!! کہا چلو انعام کی بات نہیں کرتے ۔ اب جہاں میرا بیٹا پڑھے گا وہی تمہارا صاحب زادہ بھی پڑھے گا ۔ اس بات پر دونوں راضی ہو گئے ۔غریب کا یہ بچہ بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھ کر سائنسدان بنا اور اس نے دنیا کی پہلا انٹی بائٹک پنسلین ایجاد کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا دنیا اس بچے کو الیگزنڈر فلیمنگ کے نام سے اب جانتی ہے۔جو بچہ بزنس مین کا اس کے ساتھ پڑھا اسے شدید بیماری لگی ، اس کے ساتھی بچے کی انٹیی باڈی دوا نے اس کی ایک بار پھر جان بچائی اور فلیمنگ کی دوا سے وہ ٹھیک ہو گیا ۔بزنس مین کا یہی بچہ صحت مند ہوکر برطانیہ کا 2 بار وزیراعظم بنا اس کا نام تھا ونسٹن چرچل ۔بھلائی پلٹ پلٹ کر اتی ہے۔اس لئے کہتے ہیں کر بھلا ہو بھلا ۔نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی ۔ وہ زات بندے کو اس کا وسیلہ بناتی ہے دوسرا واقع حال ہی میں برطانیہ میں ہی نہیں پوری دنیا میں ایک پاکستانی کی نیکی کی گئی ہر ایک کی زبان پر ہے ۔ عالمی میڈیا پر اس پاکستانی کا خوب چرچا ہو رہا ہے ۔یہ پاکستانی خوش قسمتی سے ہمارا عزیز بھی ہے ۔ اس کے دادا ابو ہمارے انکل اور اس کے ابو ہمارے کزن ہیں ۔ یہ دینہ موٹا غربی(ضلع جہلم)سے متعلق ہیں خبر کچھ یوں ہے کہ برطانیہ میں ایک پاکستانی نژاد حماد یوسف مرزا نوجوان کو ایک خاتون کی جان بچانے پر اعلی شاہی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ایک خاتون نے زندگی سے دلبرداشتہ ہو کر پل سے چھلانگ لگانے کی کوشش کی اور حماد یوسف مرزا نے اسے ایسا کرنے سے روک لیا تھا ۔ایسا کرنے پر شاہ چارلس سوم نے انسانیت کی خدمت پر حماد یوسف مرزا کو اب برٹش امپائر میڈل سے نوازا گیا ہے۔واضح رہے یہ نوجوان حماد یوسف مرزا کے داد جان لیفٹیننٹ جنرل محمد اسلم مرزا اور شہید کیپٹن اسلام احمد خان کے نوا سے کرنل ر طارق اسلم مرزا کے بھتیجے اور ڈاکٹر تیمور مرزا کے بیٹے ہیں ۔حال ہی میں میرے کزن کرنل طارق اسلم مرزا کے بیٹے کی شادی پر ملاقات ہوئی تھی۔ نیکی کی شہرت ملنے پر سب خوش ہیں سب کے سر فخر سے بلند ہیں ۔ تیسرے واقع کاتعلق میرے پروفیشن اور ہمارے جہلم شہر سے ہے۔ مشہور وکیل ڈاکٹر باسط مرحوم کے آپ شاگرد جونیئر وکیل رہے! کہا جاتا کہ ڈاکٹر باسط کو اس بچے سے اپنے افس کے قریب ملاقات ہوئی۔ سلام جواب ہوا ۔ان کو سلام کی ادا بھلی لگی اوربچے کو اپنے آفس میں اپنے ساتھ رکھ لیا ۔ آپ نے اس بچے کا خیال رکھا۔ بچہ محنتی تھا لا گریجویٹ ہوا۔ وکالت میں اچھی شہرت کمائی ، تیس سال وکالت سے منسلک رہے ۔ تیس سال پریکٹس کے بعد پنجاب ہائی کورٹ کے جج بنے پھر چیف جسٹس پنجاب رہے۔اپنے ساتھی ججز سے کہا کرتے تھے کہ جج کی زبان چڑیا جیسی اور کان ہاتھی جیسے بڑے رکھنے چاہیں۔ انکی گاڑی کا پٹرول ہر ماہ بچ جایا کرتا تھا جو اپ واپس کر دیا کرتے تھے ۔انکی اس عادت سے ساتھی ججز کچھ نا خوش بھی تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ انکے ریفرنس میں کم تعداد میں ججز شریک ہوئے لیکن ان کے شاگرد بہت ہیں ۔ ان کی خواہش تھی کہ بیٹی ڈاکٹر بنے لیکن بیٹی چاہتی تھی تھی کہ وہ اپنے والد کے استاد ڈاکٹر باسط کے نقش قدم پر چلے۔ گریجویشن کی کہا پاپا اگر میں ڈاکٹر بنتی تو کتناخرچہ آتا اور میں سپیشلائزنشن کرتی تو کتنا خرچہ ہوتا ؟کہا اب یہ رقم آپ کے پاس ہے اب آپ نے بھی وہی کچھ کرنا ہے جو آپکے استاد ڈاکٹر باسط نے جو سلوک آپ کے ساتھ کیا تھا چنانچہ میں نے اپنے شہر کے اسکولوں سے دس طالب علم ایسے چنے ہیں جھنوں نے بہت اچھے نمبر کے باوجود پیسے نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم چھوڑ رکھی ہے ۔ پھر پاپا نے ان بچوں کی تعلیم کیلئے بیٹی کا بھرپور ساتھ دیا ۔اس عظیم شخصیت کا نام جسٹس ملک انوارالحق ہے جو سابق چیف جسٹس پنجاب رہ چکے ہیں ۔جہلم کے مشہور وکیل رہے ۔اچھا نام کمایا۔اچھے لوگ پھول کی خوشبو کی مانند ہوتے ہیں جن کی مہک ہمیشہ ہر سو رہتی ہے ۔ اس لئے کہ ان کی زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ہوتا ہے۔ہم بھی کوشش کریں دوسروں کے کام آیا کریں کیونکہ سب سے بڑی عبادت ہی انسان سے پیار کرنا ہے ۔ الطاف حسین حالی مرحوم کا شعر یاد آ گیا
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے