بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے کشمیر کے معاملے پر اصلیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد مقامی افراد کررہے ہیں۔ اس میں کسی ملک یا ایجنسی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج ہر تھوڑے عرصے بعد سست پڑ جاتی ہے۔ ’را‘ کے سابق چیف کا کہنا تھا کہ مقامی افراد کی جانب سے آزادی کی جدوجہد کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے اور اب حالات بھارت کے کنٹرول سے بھی باہر جارہے ہیں۔ کشمیر کی تحریک آزادی میں کسی بھی بیرونی ہاتھ کے شامل ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔ پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کی سفارتی اور اخلاقی حمایت ہر فورم پر جاری ہے جبکہ آزادی کی تحریک بھی مقامی افراد کی امنگوں کی ترجمانی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے حوصلے پست ہورہے ہیں جسے دنیا دیکھ رہی ہے جبکہ کشمیر میں آزادی کی مسلح جدوجہد کرنے والے بھارتی فوج کی نسبت زیادہ ہوشیار اور چار ہاتھ آگے ہیں۔انہوں نے مودی حکومت کے دعوو¿ں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر نہیں اس حوالے سے حکومتی دعوے بے بنیاد ہیں جبکہ بڑھتے ہوئے مسائل کی ایک بڑی وجہ وزیر داخلہ امیت شاہ کی پالیسیاں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی انٹیلیجنس اب اتنی مو¿ثر نہیں جتنی پہلے تھی۔ بھارتی حکومت کا مقبوضہ کشمیر کے حالات معمول کے مطابق دکھانے کا مقصد ایک متنازع علاقے میں جی 20 کانفرنس منعقد کرنا ہے مگر یہ ممکن نہیں ہوگا۔وزیر خارجہ بلاول زرداری نے بھارت میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارت کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دہشت گردی کے معاملے پر پوائنٹ اسکورننگ نہ کرے اور اگر واقعی سنجیدہ ہے تو پھر مل کر اقدامات کرے۔وطن واپس پہنچنے کے بعد بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت جاکر بے جے پی، ہندوتوا اور آر ایس ایس کے حوالے سے دنیا کو حقیقت بتائی اور ان کا اصل چہرہ سامنے لایا، بے جے پی کا بس چلے تو وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے دے۔ بھارت میں ایک تنظیم نے میرے سر کی قیمت مقرر کی ہوئی ہے جسے یہاں سیاسی جماعت کا درجہ حاصل ہے۔ وزیر خارجہ بلاول زرداری کے آئینہ دکھانے اور اصلیت دنیا کے سامنے لانے پر بھارتی وزیر خارجہ آگ بگولہ ہوگئے اور انہوں نے الزامات کی بوچھاڑ کردی۔بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں وہی سلوک کیا گیا جو دہشت گردی کو فروغ دینے والے ملک سے کیا جاتا ہے۔جے شنکر نے صحافی کے سوال پر کھیساتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر بھارت کا حصہ تھا اور رہے گا، سری نگر سے پاکستان کا تعلق پہلے تھا اور نہ آئندہ ہوگا، پاکستان کے وہاں جی ٹوینٹی اجلاس کے انعقاد پر اعتراض کو بھارت کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور اسکی آزادی کےلئے ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے جانوں کی قربانی دی۔ جبکہ ہزاروں بچے یتیم ہو گئے۔ ما¶ں بہنوں کی عصمتیں لٹ گئیں۔ لاکھوں بے گناہ شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اور وہاں کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔لوگوں کو اب بھی بلاوجہ گرفتار کیا جارہا ہے۔ حراستی اموات، گرفتار کے بعد لاپتہ کردینے، شہریوں کے مکانات نذر آتش کردینے اور چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے کے واقعات برابر جاری ہیں۔لارڈ ماو¿نٹ بیٹن نے اکتوبر 1947 میں کہا تھا کہ تقسیم ہند میں کسی ریاست کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی۔ اگر کسی ریاست کی بھارت یا پاکستان میں شمولیت پر تنازع پیدا ہوا تو وہاں کے عوام سے رائے لی جائے گی ۔ جو فیصلہ عوام کریں گے وہی قابل قبول ہوگا۔ لہذا ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں کہا گیا کہ برٹش گورنمنٹ کی خواہش ہے کہ ریاست سے دہشت گردوں کے انخلا کے بعد حالات معمول پر آنے پر عوام کی رائے عامہ لی جائے گی او ر اس کی بنیاد پر الحاق کا فیصلہ ہوگا۔ آج 75 برس بعد بھی کشمیریوں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے نہیں دیا گیا۔ کیا یہ برٹش گورنمنٹ کا فرض نہیں بنتا تھا کہ اپنے ہی وضع کردہ قانون کوریاست جموں و کشمیر میں لاگو کرے جبکہ تقسیم ہند کے وقت برطانوی وائسرائے ہی بھارت کا حکمران تھا۔ مسئلہ کشمیر کا آبرومندانہ حل ہی اس خطے کو دہشت گردی کی زد سے باہر نکال سکتا ہے کیونکہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی بھی ردعمل کے طور پر دہشت گردی کو جنم دے رہی ہے۔ اور اس کا واحد حل یہی ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا حامی جب کہ بھارت انکاری ہے۔ یہ مسئلہ اگر ابتدا ہی میں حل ہوجاتا یا سلامتی کونسل کی قراردادوں کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دیا جاتا تو آج جنوبی ایشیا ایک پر امن خطہ ہوتا لیکن نہ تو اقوام متحدہ نے اس طرف کوئی دلچسپی لی اور نہ ہی بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی چھوڑی۔ اور آج تک یہ مسئلہ جوں کا توں ہی ہے۔ اقوام متحدہ اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں بڑی طاقتوں نے بھی کبھی اپنا مثبت اور صحیح کردار ادا نہیں کیا۔یہی وجہ سے کہ ہندوستان اپنی پوری طاقت کے ذریعے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچل دینا چاہتا ہے۔ہندوستانی حکومت عالمی رائے عامہ کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات پر امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی حکمران پاکستان پرکشمیر میں دہشت گردی کا بے بنیاد الزام عائد کر رہے ہیں۔ ہندوستانی حکمرانو ں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب کوئی قوم آزادی کے حصول پر تل جائے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کو آزادی کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ کشمیری آزادی کی تلاش میں سرکردہ ہیں اور وہ اس مقصد کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ اس میں بڑے تو بڑے جوان، عورتیں، بچے سبھی شامل ہیں ۔ ہندوستان اپنی آٹھ لاکھ فوج کر استعمال کرنے کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی کو روک نہیں سکا اور وہ زیادہ دیر تک طاقت کے استعمال سے کشمیریوں کو غلام نہیں رکھ سکتا۔