کالم

کل کیا تھا اور آج کیا ہے

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو قدرتی آفات سے نہیں” سرکاری نا گہانی” سے تباہ ہو رہا ہے۔ اگر کہا جائے کہ ہمارے تمام اسلامی ممالک قدرتی آفات سے نہیں اپنے کرتوتوں سے برباد اور بے توقیر ہو رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ہمارے ہر ادارے میں کرپشن اورسفارش کا چلن ہے، ہر چیز دو نمبر صلاحیت اور سادگی دو نمبر۔ یہی وجہ ہے ان ممالک کی رعایا ڈپریشن اور مختلف بیماریوں کا شکار ہے، خودکشیاں کر رہی ہے۔ بے روز گاری عام ہے۔ ناخواندہ اور پڑھے لکھوں میں کوئی فرق نہیں۔ اکثر پیسے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ جج وکلا ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ بیشتر مقدمات پرانصاف کے نام پر قانون سے کھیلتے ہیں۔ بے گناہوں کو سولی چڑھا دیتے ہیں،قانون کے نہیں اپنی مرضی کے فیصلے لکھوا تے ہیں اور وہ لکھتے ہیں۔ وکیل کیس بنتا نہایت لے لیتا ہے۔سوسائٹیاں دو نمبری سے پلاٹ تعداد سے زیادہ فروخت کرتی ہیں۔ عام دکاندار کم تولتا، ملاوٹ کرتا اور جھوٹ بولتا ہے۔ استاد بچوں کو پڑھتا نہیں انہیں ڈنڈے مارتا ہے۔لیڈران اسرائیل کے خلاف بڑے جوش سے تقریریں کرتے ہیں کہ ان کی بنائی گئی اشیا کو استعمال نہ کرنے کا درس دیتے ہیں۔ انکی اشیا کو حرام قرار دیتے ہیں جبکہ ۔اپنی بنائی گئی اشیا دو نمبر اور ملاوٹ سے بھرپور ہیں اس پر کوئی کچھ نہیں کہتا کوئی اس جانب توجہ نہیں دیتے جلوس نہیں نکالتے احتجاج نہیں کرتے۔ اگر اپنی اشیا استعمال کریں تو جان کو خطرہ اور ان کی اشیا استعمال کریں تو ایمان کو خطرہ۔ پھر کیا کریں یہاں ملاوٹ کرنے والوں کا کم تولنے والوں کا بائیکاٹ احتجاج نہیں کرتے۔ بد کرداروں کو برا بھلا نہیں کہتے۔ سیاستدانوں کے غباروں میں جب ہوا بھری جاتی ہے تو خوش ہوتے ہیں اور جن میں ہوا نکال دی جاتی ہے وہ شور کرتے ہیں مگر سچ نہیں بولتے کہ ہوا ان میں کون بھرتے ہیں جو ہوا بھرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں یہ سیاسی رہنما جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی ؟ جس قانون کے تحت سزائیں دی جاتی ہیں وہ قانون ہمارے نہیں برطانیہ کے بنائے ہوئے ہیں۔ہم ان پر عمل کرتے ہیں۔ ہم اسلام اسلام تو کرتے ہیں مگر اس کے مطابق زندگیاں نہیں گزارتے،اس سے اسلام بدنام ہو رہا ہے۔یہ سب اس ملک کے شہری کر رہے ہیں جن کے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ ہے لیکن کہا جاتا ہے نہ ہی یہ اسلامی ملک ہے اور نہ ہی یہ جمہوری ملک ۔ نہ ہی ملکی الیکشن جمہوری طریقے سے ہوتے ہیں اور نہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت دکھائی دیتی ہے۔ اس لئے اس کے شہری ترقی یافتہ ممالک میں جاتے ہیں۔ وہاں ان کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں، ملک کا نام بھی روشن کرتے ہیں۔ہم پیدائشی مسلمانوں ہیں ۔جو کلمہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔دوسرے وہ مسلمان ہیں جو پہلے کسی دوسرے مذہب میں تھے اور اسلام پڑھ کر مسلمان ہوئے ہیں وہ ان مسلمانوں سے کئی بہتر ہیں جو پیدائشی مسلمان ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ پیدائشی مسلمان اسلام قرآن پڑھتے نہیں سمجھتے نہیں بس نام کے ہی مسلمان ہیں اور یہ سمجھتے ہیں ہم ہر صورت جنت میں جائیں گے۔ شہد دودھ کی نہروں کا نظارہ کریں گے۔ جو گناہ کرتے ہیں انکو یقین ہے کہ نمازیں عمرہ حج کے ادا کرنے کے بعد وہ سب معاف ہوجاتے ہیں۔ سب گناہ دھل جاتے ہیں پھر سے صاف ستھرے ہو جاتے ہیں لہزا ان فرائض کے بعد دوبارہ وہی کچھ کرنے لگ پڑتے ہیں جو حج عمرہ کرنے سے پہلے یہ کیا کرتے تھے۔ پھر جب سمجھتے ہیں کہ گناہوں کی گٹھڑی بھاری ہو چکی ہے تو پھر سے حج عمرہ کر اتے ہیں۔ پھر یہ سلسلہ ساری عمر جاری رکھتے ہیں جبکہ جو مسلمان دوسرے مذہب سے مسلمان بنتے ہیں وہ ایسا نہیں کرتے وہ ایسا نہیں سوچتے اس لیے کہ وہ اسلام میں داخل پڑھ کر ہوتے ہیں جو اسلام بتاتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں جبکہ پیدائشی مسلمان اسلام کو پڑھتے نہیں سمجھتے نہیں جس کی وجہ سے ان کے اعمال ، انکی نیتیں خراب اور کام خراب کرتے ہیں ۔اگر ہم ماضی کی طرف دیکھیں تو ۔پہلے کے حالات اج کے حالات سے بہت مختلف ہیں۔ پہلے لوگ گھر کے باہر ادمی بطور چوکیدار کے رکھتے تھے کہ گھر میں کوئی کتا داخل نہ ہو۔ مگر اب کتا رکھتے ہیں کہ کوئی بندہ گھر میں داخل نہ ہو۔ پہلے لوگ کھانا گھر کھایا کرتے تھے اور واش روم کے لیے باہر جاتے تھے مگر اب کھانا باہر کھاتے ہیں اور واش روم گھر کا استعمال کرتے ہیں ۔ پہلے عدالتوں کو ریلیف روم سمجھا جاتا تھا اب سپریم کورٹ بار میں ریلف روم ہے جن وکلا کو سپریم کورٹ کی عدالتوں سے ریلف نہیں ملتا ان وکلا کو بار روم کے ریلف روم سے ریلف ملتا ہے۔ پہلے عورتیں خوشیوں کے موقع پر گھر کا کھانا پکاتی تھیں اور گانے والیاں باہر سے آتی تھیں اور اب گھر کی عورتیں کھانا باہر سے منگواتیں ہیں اور گھر کی عورتیں گھر میں ناچ گانا کرتی ہیں۔پہلے سائیکل چلانے والے کو غریب سمجھا جاتا تھا اور اب کار پر جم میں سائیکل چلانے والوں کو امیر سمجھا جاتا ہے۔ پہلے خواجہ سرا جنھیں کھسرا کہتے ہیں وہ خوشی کے موقع پر گاتا اور ڈانس کیا کرتا تھا اور آج کا خواجہ سرا مسجد کا امام بنا بھی دیکھا گیا ہے وہ ایک دو روز نہیں دو تین سال امام مسجد کے فرائض ادا کرتا رہا ۔اب وہ مسجد چھوڑ کر سڑکوں پر پھر سے دوسرے خواجہ سراں کے ساتھ بھیگ مانگ رہا ہے۔اسی طرح پہلے قیدی سے چکی پسوائی جاتی تھی اسکی چھترول کی جاتی تھی اس سے مزدوری لی جاتی تھی اور پھر یہ قیدی جیل میں کمزور ہو کر باہر نکلتا تھا مگر آج کا قیدی اب جیل میں جان بنا کر نکلتا ہے۔اس لیے کہ آج کے قیدی کو ایکسرسائز کیلیے سائیکل چلانے کو ملتی ہے ،کھانے کو دیسی مرغی ، سردیوں میں نہانے کوگرم پانی اور دیکھ بھال کیلئے سٹاف ملتا ہے۔گپ شپ کے لئے فیملی اور دوستوں سے ملنے بھی دیا جاتا ہے۔ یعنی آج کے قیدی کو جیل میں گھر سے بہتر ماحول ملتا ہے۔دیکھنے کو ٹی وی اور پڑھنے کو اخبار ملتا ہے۔یہ تمام سہولیات اسے قومی خزانے سے دی جاتی ہیں اسی لیے تو تمام جیلیں بھری ہوئی ہیں۔پہلے قیدی سے اس کے بچے ملنے آتے تھے اور اب بچے عدالت سے وکیل کے ذریعے رجوع کرتے ہیں کہ ہم سے فون پر بات کراءجائے۔پھر جج حکم صادر کرتا ہے کہ بچوں کا حق ہے کہ باپ سے بات کریں یا ملاقات کریں۔ آج کے زمانے میں بچے باپ سے جیل میں ملنے نہیں جاتے فون پر بات کرتے ہیں اسی طرح پہلے کے سیاستدان ایشوز پر الیکشن لڑا کرتے تھے اور اب الزامات پر الیکشن لڑے جاتے ہیں۔ پہلے کردار دیکھ کر دوستیاں کی جاتی تھی اور اب دوستیاں فارم ہاس بچاروں دیکھ کر کی جاتی ہیں۔پہلے سیاستدان گھر سے کھا کر الیکشن لڑا کرتے تھے اور اب نوسرباز انہیں سپانسر کرتے ہیں پھر ان سے الٹے سیدھے کام کرواتے ہیں۔ اسی طرح پہلے گوالہ دودھ میں پانی ڈالا کرتا تھا اور آج کا گوالہ پانی میں دودھ ڈالتا ہے، کیمیکل سے دودھ بناتا ہے۔ پہلے مردہ جانوروں کو کتے ، بلیاں اور گد کھایا کرتے تھے اور آج انسانوں کو یہ کھلائے جاتے ہیں۔ یہ فرق ہے پہلے اور آج کے زمانے کا!! ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ترقی نہیں کر رہے فطرت کو ترک کر رہے ہیں۔کاش ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کو سمجھ سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے