کالم

کنان پوشپورہ اور نیلی کی گمنام قبریں ….!

کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان نے بجا طور پر کہا ہے کہ بھارتی جیلوں کو کشمیری نظر بندوں کےلئے بدترین تفتیشی عقوبت گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور ان کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز سلوک کیا جا رہا ہے مگر دنیا کے اکثر حلقے اس بابت خاموش ہےں ۔دوسری جانب بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض بھارت فوج نے محض گذشتہ ایک ہفتے میں 8 معصوم کشمیریوں کو زندہ رہنے کے بنیادی انسانی حق سے محروم کر دیا۔ مبصرین کے مطابق مقبوضہ وادی میں بھارتی درندگیوں کا تذکرہ کرتے اگر کنان پوشپورہ واقعے پر نگاہ نہ ڈالی جائے تو یہ غالباً کسی طور مناسب نہیں ہو گا۔ رواں برس 23 فروری کو ”کنان پوشپورہ سانحہ“ کے 32سال پورے ہو گئے ، یہ ایسا جگر خراش واقعہ ہے جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بھی ہر انسان دوست کا کلیجہ پھٹ سا جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ ”کنان“ اور ”پوشپورہ“ کپواڑا ضلع میں واقع دو جڑواں گاﺅں ہیں۔ 32 برس قبل 1991 کی 23 فروری کو اس وقت انسانیت شرمندہ ہو گئی جب بھارتی قابض فوجیوں نے کریک ڈاﺅن اور تلاشی کے نام پر ان گاﺅں میں قیامت برپا کر دی اور ”ہیومن رائٹس واچ“ کے مطابق 100 سے 150 کے درمیان خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کی اور یہ مکروہ سلسلہ رات بھر جاری رہا ۔ 80 برس سے لے کر 13 برس کی بچیوں تک کو اس سفاکیت کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ایسا سانحہ ہے جس پر افسوس ظاہر کرنے کیلئے الفاظ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیںمگر انسانی حقوق کے ادارے اس تمام صورتحال پر تاحال خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ ایسی باتوں پر مزید تبصرہ کسی ذی شعور کےلئے ممکن ہی نہیں۔ دوسری طرف کسے معلوم نہیں کہ بھارتی صوبے آسام میں ” نیلی “ کے مقام پر 18 فروری 1983 کو محض چھ گھنٹوں کے اندر 2191 مسلمانوں سے زندہ رہنے کا بنیادی حق چھین لیا گیا تھا ۔ بظاہر یہ ایسی بات ہے کہ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا مگر آفرین ہے ” ہندوستان “ پر کہ اس کی تاریخ ایسے اندونہاک واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ یاد رہے کہ ” رادھا کانت “ نامی ایک ہندو دانشور نے چند روز قبل ایک ٹی وی پروگرام میں اپنے انٹر ویو کے دوران کہا کہ کشمیر ( مقبوضہ ) میں آئے روز بے گناہوں کو جان سے مار دینا معمول کی بات ہے اور بالعموم کچھ روز گزرنے کے بعد ان واقعات کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا ۔ اسی تناظر میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ آسام کے 14 دیہات ” علیسنگھا ، کھلا پتھر ، بسُندھری ، بغدُبا بیل ، بورجلا ، بنٹنی ، اِندر ماری ، بغدُبا ہبی ، ملادھاری ، متی پربت ، متی پربت نمبر8 ، سبہتا ، بوربری اور ” نیلی “ میں اس وقت قیامت بپا ہو گئی جب صبح کے تقریباً 9 بجے آر ایس ایس نے اچانک مسلمان اکثریتی علاقوں پر دھاوا بول دیا اور چند گھنٹوں کے اندر ان علاقوں کے تمام مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ یاد رہے کہ آسام میں ان دنوں بھی یہ پراپیگنڈا زوروں پر تھا کہ آسام کے تمام وسائل پر بنگلہ دیش سے آنےوالے مسلمان پناہ گزینوں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ اس تحریک کی پُشت پر ” آسام گن پریشد “ نامی تنظیم تھی جس کا روحِ رواں ” پرفُل کمار مہنت “ نامی ایک طالبِ علم سٹوڈنٹ لیڈر تھا جو بعد میں آسام کا وزیر اعلیٰ بھی بنا ۔ اس تحریک کے بنیادی محرکات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش سے آئے چالیس لاکھ پناہ گزینوں کو عارضی طور پر بھارتی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا جبکہ انتہا پسند ہندوﺅں نے ” ULFA“ ( یونائیٹد لبریشن فرنٹ آف آسام ) اور ” بوڈو لینڈ فرنٹ “ کے زیرِ اہتمام کانگرس کا یہ فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ بنگلہ دیش سے آئے مسلمانوں کو کسی صورت آسام میں بسنے نہیں دیں گے ۔ مبصرین کے مطابق مودی کا متنازعہ شہریت ترمیمی بل بھی اسی سلسلے کی ایک تازہ کڑی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ انڈین ایکسپریس کے ” ہمندر نارائن “ ، آسام ٹربیون کے ” بیدبراتا لاہکر “ اور اے بی سی نیوز کے ” اجے شرما“ اس نسل کشی کے عینی شاہد تھے اور انھوں نے اپنے اخبارات میں اس معاملے کی پوری تفصیلات بیان کیں ۔کہاجاتا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ اپنی نوعیت کی سب سے بھیانک نسل کشی تھی ۔ مقبوضہ کشمیر کاجائزہ لیں تو تازہ ترین رپورٹس کے مطابق محض جنوری 2023کے مہینے میں 10نہتے کشمیریوں کو شہید کیا گیا جبکہ 90 افراد زخمیوں کی فہرست میں شامل ہیں ۔ 137کشمیریوں کو جرمِ بے گناہی میں گرفتار کیا گیا ۔ 11 دکانوں اور مکانوں کو مسمار کیا گیا جبکہ مزید 3 خواتین کو بیوگی کے لق و دق صحرا میں دھکیل دیا گیا ۔ دوسری طرف یہ بات بھی غالباً انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہونی چاہیے کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق محض اس مہینے کے دوران بے شمار کشمیری ایسے لا پتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں جو بظاہر ہندوستان کی ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں یقینا شہید کیے جا چکے ہیں مگر چونکہ ایسے تمام افراد کی شہادت کی تصدیق نہیں ہو سکی لہذا ان کے لواحقین عجیب سی صورتحال میں مبتلا ہیں کیونکہ ایسی شادی شدہ خواتین کو نہ تو بیواﺅں میں شمار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے زمرے میں ۔ معاشرتی اور سماجی حوالے سے یہ اتنا بڑا انسانی المیہ ہے جس کا شائد تصور بھی کسی ذی نفس کے سواہانِ روح ہو مگر اسے عالمی ضمیر کی بے حسی کہا جائے یا انسان دوست ہونے کے دعویدار حلقوں کا تجاہلِ عارفانہ کہ اس معاملے کی سنگینی کا خاطر خواہ انداز سے اظہار تک نہیں کیا جا رہا ۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق آر ایس ایس کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جموں کشمیر کے غیور عوام اپنے ایک لاکھ سے زائد فرزندوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور یہ طے ہے کہ جلد یا بدیر قابض بھارتیوں کو کشمیر سے رخصت ہونا ہو گا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ کفر کی حکومت تو شاید کچھ عرصہ نکال جائے مگر ”ظلم“ کے کالے اندھیرے زیادہ دیر تک صبح کے اجالوں کو طلوع ہونے سے نہیں روک سکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri