کالم

کیااصلاحات کے بغیرانتخابات کا فائدہ ہوگا؟

وطن عزیز میں جس طرح قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اُمیدواران کے اہلیت اور چناﺅ کےلئے کو ئی طریقہ کا ر طے نہیں اس طرح ووٹروں کی تعلیم اور تربیت ، شعور اور انتخابات سے پہلے اصلاحات کا بھی کوئی معیار نہیں۔ وہ کیا انتخاب اور الیکشن ہوگا ۔ جب تک ایک متوسط طبقے کا فرد ملک کے جاگیر دار سر مایہ دار کے مقابلے میں الیکشن نہ لڑسکتا ہواور یہ تب ممکن ہوگا جب ملک میں الیکشن سے پہلے اصلا حات ہو۔جس ملک میں ووٹ لنچ بکس، دو وقت کھانے،تھانے کچہری ، سکول کالج میں دا خلے ، سوئی گیس اور بجلی کنکشن ، بجلی ٹرانسفارمر کی مرمت اور گلی کو چوں کے پکا کرنے پر بکتا ہے۔ اُس قوم سے کیسی توقع کی جاتی ہے کہ اُسکا نمائندہ صحیح ہو گا جو ملک کو اچھے طریقے سے چلائے گا۔ ہمیں اتنا پتہ نہیں کہ جو ٹرانسفامر، گلی ٹھیک کی جاتی ہے یا کالج اور یونیور سٹی میںکسی سفارش سے دا خلہ دیا جاتا ہے اُس کا حا صل کرنا ہمارا قانونی اور آئینی حق ہے اور ہمارے ایم این اے ، ایم پی اے ، سول اور فوجی بیوروکریسی جو کچھ کھاتے پیتے ہیں وہ اس دھرتی کے 23کروڑ عوام کی خون پسینے کی کمائی ہے۔ گزشتہ 74 سالوں میں حکمرانوں نے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا ہوا ہے مجال ہے کہ کوئی اس کا نام بھی لیں ۔ہر پا رٹی خواہ مسلم لیگ سے ہو یا پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی سے ہو یا وہ سول اور ملٹری بیوروکریٹ ہو ، ہر ایک کا مالی سکینڈل اربوں روپے سے کم نہیں۔ کوئی کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔ ایک دن پکڑا جاتا ہے اور دوسرے دن چھوڑا جاتا ہے ۔ موجودہ دور میں پی پی پی اور مسلم لیگ نے کس طریقے سے اپنے کیس ختم کر دیئے۔ جبکہ اسکے بر عکس ترقی یافتہ دنیا میں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں اورا نکا باقاعدہ مواحذہ کیا جاتا ہے۔ اور ان میں کئی کو عہدوں سے ہٹایا بھی گیا۔ امریکی صدر انڈریو جانسن ، ایران کے صدر ابولھاسان بانسدار ،برازیل کے صدر فرینڈو کی، وینزیولا کے صدر انڈرس پیریز، رو س کے صدر یلسن ، امریکہ کے صدر بل کلنٹن کا ، فلپائن کے صدر جو زف اسٹرادا کا اورپیرو کے صدر البریٹو کا، انڈونیشیاءکے صدر عبدلرحمان کا، لتوینیا کے صدر، پیرا گوے کے صدر فرنینڈو کا، یوکرائن کے صدر ویکٹر کا، برازیل کے صدر ، ساﺅتھ کوریا کے صدر پارک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ اگر ہم پاکستانی قوم کی عقل اور دانش کا تجزیہ کریں تو ما ہرین کے مطابق وطن عزیز میں عام لوگوں کی عقل و دانش یعنی Intellect level ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میںانتہائی کم ہے نتیجتاً اس کا منفی پہلو ہمارے سیاست پر نمایاں ہے۔معاشرتی علوم کے ماہر کہتے ہیں کہ جن جن ممالک میں تعلیم کی شرح زیادہ ہے وہاں جمہوری عمل اور جمہو ریت بھی ترقی پذیر مما ک کی نسبت بہتر ہے ۔ نیو زی لینڈ، ڈنمارک، آئس لینڈ اور سویڈن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔تعلیمی زیادہ شرح کی وجہ سے ان ممالک میں عام لوگوں کا شعوری سطح زیادہ اچھا ہے جسکی وجہ سے ان ممالک میں جمہوری نظام بھی بُہت بہتر ہے۔ شاعر مشرق کہتے ہیں کہ جمہو ریت وہ طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا جاتاہے ، تھولا نہیں جاتا ۔ جن لوگوں کا تعلیم نہیں ، لازمی بات ہے وہاں پر لوگوں شعوری لیول بھی کم ہوتے ہے نتیجتاً عوام عام انتخابات میں غلط اور نا اہل لوگوں کومنتخب کرتے ہیں۔اگر ہم غور کر لیں تو پاکستان میں جمہوری ادارے تیسرے درجے میں ہے اور جس ملک کے جمہوری نظام میں چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم ، غیر جانبدارہ سیاسی نظام، مخالفین پر دباﺅ،امن وامان، کرپشن اور اقربا پر وری، غیر جانبدار سیاسی نظام اور میڈیا پر قد عنیں ہوں اور اچھی حکمرانی نہ ہواس ملک میں جمہوریت اور ووٹ کی کیا حقیقت ہے ۔ اُس نظام میں وہی لوگ حکمران ہوں گے جنکے پا س وسائل ہوں اورسیاسی پا رٹیوں جس میں خود جمہو ریت نہ ہو اور روایتی سیاست کا دور دورہ ہو وہ کیا جمہوریت ہے ۔ ہمارے روایتی سیاست دان جو بڑے بڑے زمینوں اور دولت کے مالک ہوتے ہیں سیاست میں حصہ میں لے سکتے ہیں جبکہ اسکے بر عکس امریکہ کا جا رج واشنگٹن سر ویر، جون انڈریو اُستاد، ابراہیم لنکن جنرل سٹور کا مالک اور بعد میں پوسٹ ما سٹر ، جیمس گری فیلڈ انسٹرکٹر ، ولیم ہور اسسٹنٹ پر وسیکیو ٹر، ولسن پی ایچ ڈی، ہر برٹ ہو معدنیات انجینیر، ریگن فلمی اداکار، بارک اوبانا کسی کمپنی کا ڈائریکٹر ، جا رج بُش سپو رٹ ٹیم کا مالک، کلنٹن لکھاری اور جمی کا رٹر نوبل انعام یا فتہ اور فو رڈ لکھا ری تھے۔اس وقت تک پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے11 انتخابات کئے جاچکے ہیں۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو ان انتخابات میں جنہوں نے بھی حصہ لیا ہے وہ تقریباً خاندانی اور روایتی سیاست کرتے ہیں اور تقریباً 3 ہزار سے 6 ہزار تک روایتی سیاست دان ہیں جو نسلاً درنسلاً وطن عزیز میں قومی اور صوبائی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔ابھی 2023 میں دوبارہ انتخابات ہونگے ان میں تقریباً وہ سیاست دان حصہ لیں گے جو پاکستان بننے کے بعد انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ابھی الیکشن کی آمد آمد ہے ۔ اگر الیکشن ریفارمز کے بغیر یہ انتخابات کئے گئے تو اس میں بھی وہی روایتی سیا ستدان سامنے آئیں گے جسکے پاس معیشت کی بحالی اور عوای فلاح بہبود کا کوئی فارمولا اور منصوبہ نہیں ہوگااور وطن عزیز میں اندرونی اور بیرونی قرضے، بے روز گاری اور مہنگائی مزید بڑھے گی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے