کالم

کیا اسی پرانے کیلے کے چھلکے سے پھسلنا پڑے گا

نواز شریف ایک بار پھر حکومت حاصل کرنے کی آرزو سے آراستہ پاکستان میں موجود و متحرک نظر آرہے ہیں۔ عدلیہ دل و جان سے فدا دکھائی دے رہی ہے۔ضمانت پہ ضمانت ملتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان میں تو نہیں ، لیکن سنا ہے کہ بعض ملکوں کی اعلیٰ عدلیہ ایک ہی کیس میں ضرورت اور ہدایت کے مطابق دو بالکل برعکس اور متضاد فیصلے دینے کی قابلیت رکھتی ہے اور بوقت ضرورت ایسا کر بھی جاتی ہیں،نواز شریف جب معتوب تھا ،تو ہر راستہ پاو¿ں سمیٹ کر سامنے سے ہٹ جاتا تھا ،اور اب جب وہ خیال کرتا ہے کہ بقول شرلی بے بنیادمعاملہ فٹ ہے تو راہیں خود بخود کھلتی چلی جا رہی ہیں، پہلے جن منصفوں کے منہ آگ اگلتے تھے ،اب ہنس ہنس کر ایک دوسرے سے لگ لگ کر خوش ہو رہے ہیں۔سچ پوچھیں تو میرے لیے اس بات پر اعتبار کرنا کسی طور ممکن نہیں ہے کہ نواز شریف اپنے اوپر لگنے والے کرپشن ، کمیشن اور بڑی رقوم غیر قانونی اور غیر مجاز طریقوں سے ملک سے باہر لے جانے کے سارے الزامات سے آزاد ہو چکے ہیں۔ان پر الزام تھا کہ انہوں نے لندن میں پاکستان سے کمائی اور ہتھیائی گئی رقوم سے جائیداد خریدی تھیں،وہ الزام ایک حقیقت کے روپ میں لندن میں موجود اور نواز شریف کے بیٹوں کا مسکن ہے۔ اسی مسکن میں نواز شریف چار سال تک مفرورکے طور پر مقیم رہے تھے اور اسی رہائش گاہ کے باہر بنے فٹ پاتھ چور چور کے بلند آہنگ نعروں کے بہت بڑے گواہ بھی ہیں۔نواز شریف کو دبئی کی ایف زیڈ کمپنی کا اقامہ رکھنے پر فارغ کیا گیا تھا اور پھر وہ چار برس عجیب و غریب بیماریوں کے علاج کے لئے لندن میں مقیم رہنے کے بعد دبئی کی اسی کمپنی کے ہوائی جہاز پر سوار ہو کر واپس پاکستان پہنچتے ہیں ، یقینی طور پر انہوں نے پرانے بے وفاو¿ں سے تجدید وفا اور حدود جفا کے مفصل نقشے مرتب کروا لیے ہوں گے۔کسی ملک کی عدالتوں کے فیصلوں کی ٹائمنگ سارے نظام انصاف کی اصلیت کھول کر رکھ دیتی ہے،ستم ظریف کہتا ہے کہ دراصل وہاں کے منصفوں کے کان میں کہیں سے ایک آواز آتی ہے،کھول دواور فیصلہ آ جاتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ آج کل نواز شریف پر ہر کیس میں ضمانتیں اس طرح نچھاور ہو رہی ہیں ،جس طرح کسی پارٹی میں تماشبین دس دس روپے کے نوٹ نچھاور کرتے ہیں ،بلکہ ایک ماہر تماشبین کی اصطلاح میں نوٹوں کا چھینٹا لگاتے ہیں۔ستم ظریف کی الجھن یہ ہے کہ نواز شریف کے سیاسی پس منظر سے اور جملہ راز ہائے درون خانہ سے واقف و آگاہ بھائی لوگوں پر آخر کیا افتاد آن پڑی ہے کہ ؛وہ ایک بار پھر سے کریانے کی دوکان سے کسی بڑے مال جیسی شاپنگ کرنے پر تیار ہوئے بیٹھے ہیں۔ اس کا کوئی متعین جواب تو ہے نہیں ،ہاں اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کریانے کی اس دکان سے چوری کا مال ادھار میں بھی مل جاتا ہے ۔شرلی بے بنیاد کی اپنی ایک علیحدہ منطق ہے ،وہ کہتا ہے کہ ہماری جیبیں گرم کرنے والے عرب ملکوں نے صاف صاف بتا دیا ہے کہ؛انڈیا میں ہماری سرمایہ کاری اور مفادات بہت زیادہ ہو گئے ہیں، لہذا اب دشمنی کا بزنس بند کر کے دوستی کے دروازے کھولنے ہوں گے ۔اگرچہ ہم کرتار پور راہداری کھول کر دنیا کو اچھے بچے بن کر دکھا بھی چکے تھے، لیکن تجارتی معاملات کو آگے بڑھانے کی قدرت اور صلاحیت نہیں رکھتے۔ وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے برعکس انڈیا کے ساتھ صرف قانونی تجارت ہی ہو سکتی ہے ،ادھر اسمگلنگ کے امکانات معدوم ہیں۔لہٰذا اب ایک ایسے اعتباری بندے کی ضرورت تھی جو دھندے کا ماہر ہو ،چندے کا نہیں۔ میں نے ان ماہرین قیاس و وسواس کو بتایا ہے کہ نواز شریف کے حوالے سے میرے سوالات بالکل دوسری طرح کے ہیں، مثلا ً میں بالکل سمجھ نہیں سکا کہ یہ گلے میں لمبا سا مفلر لٹکانا کہاں کا فیشن ہے۔میاں نواز شریف نے اپنے وطن ثانی یعنی لندن میں مقیم رہ کر لباس کے معاملے میں عجیب و غریب ذوق کا مظاہرہ کیا تھا ،سیاہ رنگ کا ماسک ناک کی بجائے ،منہ چھپانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ستم ظریف کا کہنا ہے کہ میاں صاحب پاکستان آمد سے پہلے سرخ عروسی رنگ کالباس پہنتے رہے ہیں ۔وہ کہتا ہے کہ نواز شریف کی سیاست کی تاریخ باور کراتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ لکھی ہوئی تحریر پر ہی پنسل پھیری ہے۔اب کی بار بھی وہ خود سپردگی کے عالم اپنا سب کچھ پیا پر نچھاور کرنے پر آمادہ و تیار نظر آتے ہیں۔ نوازشریف نے ووٹ کی عزت تلاش کرنے والے انقلابی سے لے کر اقتدار و اختیار کی خاطر ہر کام کر رکھا ہے ۔ایک سزا یافتہ شخص کا ملک میں آتے ہی کسی کی مکمل تائید و اعانت سے مینار پاکستان کے سائے میں کبوتری جلسے کے اسٹیج پر پبلک کو دکھانے کے لیے اجازت صرف پاکستان میں مل سکتی ہے۔ اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ پاکستانی سیاست کو نت نئی بداخلاقیوں سے متعارف کرانے والا ، ایک بار پنجاب کا وزیر مالیات ، دو بار وزیر اعلیٰ پنجاب اور تین بار اس کم نصیب ملک کا وزیراعظم رہنے والا اور پرانی سیاست گری کی مجسم تصویر مینار پاکستان کے سامنے کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ ہمارا بیانیہ پوچھنا ہے تو ہماری اخلاقیات سے پوچھو۔جی چاہتا ہے کہ اس سے پوچھا جائے کہ کونسی اخلاقیات؟ خاتون سیاستدان کی نازیبا تصاویر کی ہیلی کاپٹر کے ذریعے تقسیم ہونے والی اخلاقیات ؟ رفیق تارڑ نامی جج کے ہاتھوں نوٹوں سے بھرے بریف کیس ججز میں تقسیم کرنے والی اخلاقیات ؟ کون سی اخلاقیات ؟ لکھنے کو بہت ہے مگر بس اس پر حیران ہوں کہ پاکستانیوں کو پھر اسی پرانے کیلے کے چھلکے سے پھسلنا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri