کالم

کیا بلوچستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوگا؟

riaz chu

حال ہی میں بلوچستان میں کالعدم تنظیم بلوچ نیشنل آرمی (بی این اے) کے سربراہ گلزار امام شمبے کو گرفتار کیا گیا۔انہوں نے میڈیاکے روبرو اپنی غلطیوں پر ندامت اور مسلح جدوجہد کا غلط راستہ اختیار کرنے پر قوم سے معافی مانگی۔ گلزار امام نے کہا کہ مسلح جدوجہد کا راستہ غلط تھا۔ امید ہے ریاست ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے اصلاح کا موقع دے گی۔ مسلح جدوجہد میں شامل بلوچ باشندے لڑائی کے بجائے واپسی کا راستہ اختیار کریں۔ اس کالعدم تنظیم نے نواب اکبر بگتی کی فوجی اپریشن کے دوران ہلاکت کے ردعمل میں بلوچستان میں علیحدگی کی مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا جس سے بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کو مزید حوصلہ ملا اور انہوں نے بلوچستان میں غیرمقامی باشندوں کی ٹارگٹ کلنگ اور زیارت میں قائداعظم کی ریذیڈنسی سمیت سرکاری اور نجی عمارات کی توڑ پھوڑ اور پاکستان کے قومی پرچم کو نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان تخریبی سرگرمیوں کیلئے بی این اے‘ بی ایل اے اور بلوچستان کی دوسری علیحدگی پسند تنظیموں کو بھارت کی سرپرستی اور فنڈنگ بھی حاصل ہونے لگی۔بلوچ مسلح تنظیموں میں ضلع پنجگور کے علاقے پروم سے تعلق رکھنے والے گلزار ماضی میں بلوچ ریپلیکن آرمی (گلزار امام گروپ) کے سربراہ رہ چکے ہیں۔وہ 2018 تک بلوچ ریپبلکن آرمی میں براہمداغ بگٹی کے نائب رہے۔ بعد ازاں بلوچ ریپبلکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام سے بی این اے وجود میں آئی، جو بلوچستان کے علاقوں پنجگور اور نوشکی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں ملوث ہے۔بی این اے پاکستان میں درجنوں دہشت گرد کارروائیوں کی ذمہ دار ہے۔گلزار امام کے افغانستان اور بھارت کے دورے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔گلزار امام نے اعتراف کیا کہ میں پندرہ برس تک بلوچستان کےلئے حقوق کےلئے جاری مسلح جدوجہد کا حصہ رہا ہوں اور ہر طرح کے حالات سے گزرا ہوں۔ بحیثیت بلوچ میرا مقصد اپنی قوم اور خطے کی حفاظت کرنا ہے۔ میں نے ریاست کو سمجھے بغیر اس جنگ کا ااغاز کیا۔ جس راستے کا انتخاب کیا وہ غلط تھا کیوں کہ مسلح جدوجہد سے بلوچستان کے مسائل مزید گمبھیر ہوتے گئے۔ کچھ طاقتیں بلوچ قوتوں صرف ایک پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں جس سے نقصان صرف بلوچ قوم کا ہورہا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان پستی کا شکار ہوگیا ہے۔ بلوچستان میں پائیدار امن کےلئے ضروری ہے کہ یہاں مذاکرات کیے جائیں کیونکہ گلزار اور اس طرح کی گرفتاریاں وقتی طور پر کچھ چیزوں کو روک سکتی ہیں، تاہم کسی ایک فرد کی گرفتاری سے تنظیم ختم نہیں ہوتی۔ ماضی قریب میں پاکستان کے خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملک بھر میں اور خصوصاً بلوچستان میں دہشت گردی، بدامنی اور اغوا برائے تاوان کے پیچھے بھارتی ایجنسیوں کا پتہ لگایا اور اس کے ٹھوس ثبوت بھی حاصل کئے۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ بھارتی ایجنسی را نے بلوچستان کے حالات خراب کرنے اور عوام کو حکومت کے خلاف ابھارنے کےلئے اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلکنگ شروع کر رکھی تھی اس کا الزام حکومتی اداروں پر لگایا جاتا تھا جس سے عوام میں بے چینی اور حکومت کے خلاف نفرت پیدا کی جا رہی تھی۔ را ایک طرف تومحب وطن بلوچ رہنماو¿ں کو ختم کر رہی تھی تو دوسری طرف شرپسندوں کو عسکری طور پر نواز رہی تھی تاکہ بلوچستان میں بدامنی پھیلائی جا سکے ۔ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کےلئے بھارت سے اسلحہ اور پیسہ آرہاتھا ۔قانون نافذ کرنے والے ادارے آج بھی را کے نیٹ ورک کے توڑ میں مصروف ہیں ۔ بعض اداروں کا خیال ہے کہ بھارتی کیمپ میں جانے والے اور اغوا ہونے والے بلوچ لیڈروں اور دیگر افراد کو جو افغانستان کے کیمپوں میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ را کے زیر ہدایت ہو رہا ہے ان کی تفصیلات پاکستانی میڈیا پر جاری کی جائیں تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ ہمارے اندر رہنے والے ہم ہی سے کچھ لوگ بھارت اور اس کی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اس امر کے ثبوت بھی موجود ہیں کہ براہمداغ بگٹی اور اس کے ساتھی ریاض گل بگٹی اور حمزہ مری اکثر بھارت آتے جاتے رہتے تھے اور یہ لوگ بھارت کا سفر افغانستان سے افغان دستاویزات پر دوسرے ناموں سے کرتے ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ماضی میں جن افراد کو اغوا کیا گیا یا انہیں ورغلایا گیا اب انہیں کابل لے جا کر چھانٹی کی جاتی۔ ان میں قابلیت کی بنیاد پر مختلف لوگوں کو مختلف تربیتی مراکز میں بھیج دیا جاتا ۔ افغانستان میں سپین بولدک اور شوراداک کے علاوہ جبل السراج میں انتہائی جدید تربیتی مراکز کا انکشاف ہوا۔ کابل سے تاجکستان کی سرحد پر 70 کلومیٹر دور درہ پنج شیر کے قریب جبل السراج تربیتی کیمپ جو احمد شاہ مسعود کے گروپ کے کنٹرول میں تھی، میں جدید ترین ہتھیاروں اور گولہ بارود کی تربیت دی جاتی تھی۔ دوسرامرکز درہ نور کے ساتھ نورستان میںننگر ہار، لغمان اور کنٹر کے سنگم پر واقع تھا۔ اس کے علاوہ صوبہ پکتیا کے علاقے گومل اور شرافہ میں بھی تربیتی کیمپ تھے۔ بھارت نے بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کی کھل کر سرپرستی کرنا شروع کر دی۔ اس پر پاکستان کی سول سیاسی اور عسکری قیادتوں نے باہم مل کر بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کو سیاست کے قومی دھارے میں واپس لانے کی حکمت عملی طے کی جس کے تحت بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کیلئے وہاں متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا گیا اور عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈال کر بلوچستان اور ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دی گئی جس کے مثبت نتائج سامنے آنا بھی شروع ہو گئے اور بیشتر علیحدگی پسند عناصر ہتھیار ڈال کر قومی سیاست کے دھارے میں واپس آگئے۔ تاہم گزشتہ حکومت کے دور میں بلوچستان کے جاری ترقیاتی کاموں سے بھی ہاتھ کھینچ لیا گیا اور بلوچستان بھی بلیم گیم کی سیاست کی زد میں آگیا نتیجتاً بلوچستان میں عسکریت پسند اور علیحدگی پسند عناصر پھر سرگرم عمل ہو گئے۔ اب حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادتوں کی کوششوں کے نتیجہ میں بلوچستان دوبارہ ترقی کے سفر کی جانب گامزن ہوا ہے جس میں پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا منصوبہ کلیدی کردار ادا کررہا ہے تاہم اس منصوبے کو مکمل طور پر اپریشنل کرنے کیلئے بلوچستان اور پورے خطے میں امن و سلامتی کی سازگار فضا پیدا ہونا ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri