تحریر! عرفان صدیقی
چھبیسویں آئینی ترمیم کی اونٹنی ، آئندہ چار چھ دنوں میں کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ جائے گی ۔ دو ہی ممکنات ہیں۔ ایک یہ کہ ترمیم کسی دروازے، کھڑ کی یا دریچے سے راستہ بناتی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کا حصہ بن جائے۔ دوسرا یہ کہ دروازوں، دریچوں اور دیواروں سے سر پھوڑنے کے بعد، خاک بسر ، وزارت قانون میں پڑی فائلوں کے گورستان کا رزق ہو جائے ۔ ڈولی اٹھے یا ارتھی، دونوں صورتوں میں ایک بھونچال بہر طور آئے گا۔
مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی اسے اٹھارہ برس قبل طے پانے والے عہد نامے میثاق جمہوریت کا نامکمل ایجنڈا خیال کرتی ہیں جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور محمد نواز شریف نے دستخط کئے تھے۔ ہمہ جہتی اصلاحات کے اس عہد نامے سے اتفاق کرتے ہوئے ، مولانا فضل الرحمن اور عمران خان سمیت کم و بیش پوری سیاسی قیادت اس کی توثیق کر چکی ہے۔ اس عہد نامے کا آغاز ہی عدالتی اصلاحات سے ہوتا ہے جس کی شق 3 جوں کی تقرری کے طریقہ کار اور شق 4 ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے بحث کرتی ہیں۔ ان کا کوئی رشتہ تعلق موجودہ منظر نامے سے نہ تھا۔ تب تو جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس منصور علی شاہ عدلیہ کا حصہ بھی نہیں بنے تھے۔ لیکن اٹھارہ سال قبل بھی آج ہی کی طرح بنیادی مسئلہ یہی تھا کہ کیونکر نظام عدل و انصاف کو آئین وقانون کے مہذب قرینوں میں ڈھالا جائے اور کس طرح بچوں کی تقرری کوایک ایسی معتبر مشق کا حصہ بنایا جائے جو عدلیہ کو اعتبار و وقار دے کر اسے سیاسی آلائشوں سے پاک کر سکے۔
ایوب اور یحیی کے طویل مارشل لاں اور ان کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کے بعد اتفاق رائے سے 1973 کے آئین کی منظوری، نئے سرے سے کار آشیاں بندی کا نہایت مثبت اور پر عزم آغاز تھا لیکن صرف چار سال بعد، تیسری مرتبہ جمہوریت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ نوزائیدہ آئین عضو معطل ٹھہرا۔ نئے پاکستان کے نئے آئین سے وفاداری کی قسم کھانے والی عدلیہ پہلی آزمائش سے دوچار ہوگئی۔ اس نے اپنا فیصلہ سنانے میں چند گھنٹے بھی نہ لئے ۔ چاروں صوبائی ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے، نئے بندوبست کے تحت صوبائی گورنروں کا حلف اٹھا کر مختصر غیر تحریری بلکہ عملی فیصلہ سنا دیا کہ وہ آئین کے ساتھ نہیں، بندوق کے ساتھ کھڑے ہیں بعد ازاں جسٹس انوار الحق کی سپریم کورٹ کی طرف سے فوجی انقلاب کو حلال و طیب قرار دینا محض ایک رسمی کار روائی تھی ۔
ہماری عدلیہ کبھی من حیث الا دارہ ، آئین شکن آمروں کے سامنے کھڑی نہ ہو سکی۔ اس نے ہمیشہ آئین ، جمہوریت اور پارلیمان کے بجائے ، انہیں پاں تلے کچلنے والوں کا ساتھ دیا۔ آمروں سے سابقہ پیش آیا تو انہیں حلقہ یاراں سمجھ کر ریشم کی طرح نرم ہوگئی ۔ منتخب جمہوری حکومتوں اور پارلیمنٹ سے معاملہ پڑا تو اسے رزم حق و باطل جان کر فولاد کی طرح سخت اور بے لچک ہوگئی ۔ آمروں کی حویلی کی خاکروبہ بن جانے کو اعزاز وافتخار سمجھنے والی عدلیہ نے جمہوریت کو ہمیشہ اپنی کنیز جانا ۔ اس فلسفہ عدل و انصاف نے عدلیہ کو ایسی طاقتور سپاہ کی شکل دے دی جس نے پارلیمان ، جمہوریت اور سیاستدانوں کو تختہ مشق بناتے ہوئے کبھی نہ سوچا کہ وہ ملک و قوم کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے۔ بیسیوں فیصلے ایسے ہیں جو صرف کسی بیاض ندامت ہی میں جگہ پا سکتے ہیں۔ بلا خوف درعایت اور بلا رغبت و عناد کا حلف اٹھانے والوں کا شاید ہی کوئی اہم فیصلہ ایسا ہو جس پر خوف سا یہ مگن نہیں ، جس سے رعایت کا تاثر نہ پھوٹے ، جس پر رغبت کی مہر نہ لگی ہو اور جس سے عناد کی بو نہ آئے۔
بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر آنے والے وزیر اعظم نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے فیصلے سے ابھی تک تعفن اٹھ رہا ہے۔ ہر پیمانے سے آگے بڑھتے اور دیرینہ مسائل پر قابو پا کر نئی بلندیوں کو اڑان بھرتے پاکستان کو چشم زدن میں ایسی گہری کھائی میں پھینک دیا گیا جس سے نکلنے کے لیے وہ آج تک ہاتھ پاں مارہا ہے ۔ 2017 میں پانچ ججوں نے جس کسی کے دبا کے تحت بھی قوم کے قلب میں یہ خنجر گھونپا، تاریخ صرف انہی کی ملامت کرے گی ۔ آصف سعید کھوسہ، اعجاز افضل خان، گلزار احمد، شیخ عظمت سعید اور اعجاز الا حسن چاہے جتنی بھاری پینشن پائیں، جتنی پرکشش مراعات لیں ، جتنی پر تعیش اقامت گاہوں میں رہیں، پاکستان روز حشر ان کا گریبان ضرور پکڑے گا۔ آج بھی سو سو جتن کر کے پاکستان اپنی مشکلات پر قابو پاتا، انگڑائی لیتا دکھائی دے رہا ہے ۔ بد خواہوں کی تمام تر مساعی کے با وجود دیوالیہ پن کا خطرہ مل چکا ہے۔ چالیس فی صد کو چھوتی مہنگائی کی شرح 6.9 فی صد تک آگئی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ سٹاک ایکسچینج نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ شرح سود بتدریج کم ہو رہی ہے۔ روپیہ متحکم ہوا ہے۔ برآمدات بڑھ رہی ہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے ماہانہ ترسیلات زر تقریبا تین ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2017 کے بر عکس ، مسلح افواج تعمیر وطن کے ایجنڈے میں حکومت کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ ایسے میں نظام کو تلپٹ کرنے کے خطرات ایک بار بار پھر اسی کارگاہ عدل سے پھوٹ رہے ہیں جو کبھی ضرورت کبھی سہولت کبھی آئینی تو ازن اور کبھی مکمل انصاف کے نام پر اہلِ پاکستان کی منزل کھوٹی کرتی چلی آئی ہے ۔ 63 (A) کی تعبیر و تشریح بھی ایک سیاسی ایجنڈے کی کوکھ سے پھوٹی تھی جس نے آنے والے ما و سال کو انتشار کی بھٹی میں جھونک دیا۔
12 جولائی کا فیصلہ بھی ایسا ہی شاہکار ہے جس نے مخصوص اہداف کے حصول کے لئے آئین و قانون کے پر خچے اڑاتے ہوئے ہمہ جہتی انتشار کو بے لگام کر دیا ہے ۔ کیا مارشل لاں سے نجات حاصل کرنے کے بعد ہم آئین و قانون سے ماوری ایک ایسی آمریت کے کے شکنجے میں کس دیے گئے ہیں جو روایتی آمروں کی بندوق کے بجائے وہی کام تر از وسامنے سجا کر کرتی ہے؟
26 ویں ترمیم ایک ایسی آئینی عدالت تجویز کرتی ہے جو دنیا کے 80 کے لگ بھگ ممالک میں کام کر رہی ہے۔ یہ ترمیم جوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو اٹھارھویں ترمیم کی طرف واپس لانا چاہتی ہے جسے جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدلیہ کی آزادی کے نام پر کٹہرے میں لاکھڑا کیا تھا اور پارلیمنٹ کی کنپٹی پر بندوق رکھ کے اکیسویں ترمیم کرائی تھی۔ آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی مفلوج ہی نہیں مدفون ہو چکی ہے۔ 2022 میں کمیٹی کے آٹھ ارکان نے مکمل اتفاق رائے سے پشاور ہائیکورٹ میں تین جوں کی تعیناتی مستر د کر دی۔ عدلیہ نے پارلیمانی کمیٹی کے اس متفقہ فیصلے کو مسترد کر دیا ۔ تینوں جج صاحبان نے حلف اٹھالیا۔ کیا یہ صورت حال جاری رہنی چاہیے؟ کیا حج خود ہی ججوں کو نامزد اورتعیناتے کرتے رہیں ؟ ان دونوں ترامیم میں کچھ ایسا نہیں جو کسی کے بنیادی حقوق پر ہلکی سی خراش بھی ڈالتا ہو۔ اس کے برعکس یہ ان ہزاروں مظلوموں کے حق انصاف کو قوی بناتی ہے جو اسال ہاسال جیلوں میں گلتے سڑتے رہتے ہیں اور سپریم کورٹ تک ان کی داد فریاد نہیں پہنچتی
امریکہ میں حج کی نامزدگی صدر کرتا ہے۔ سینیٹ مہینوں نامزد جج کو سامنے بٹھا کر بے رحمانہ کرید کرتی ہے۔ وہ حج کی نامزدگی مستردکرنے کا گلی اختیار رکھتی ہے۔ کسی بھی حج کا مواخدہ کر سکتی ہے۔ سزا دے سکتی ہے۔ پاکستان ابھی اس منزل سے کوسوں دور ہے۔ لیکن کیا ججوں کی تعیناتی کے معاملے سے پارلیمنٹ، انتظامیہ اور صدر مملکت کو مکمل طور پر بے دخل کر کے اسے کسی گھر یلو خانگی مسئلے کی طرح خود جھوں پر چھوڑ دیا جائے؟ کیا کر ارضی کے کسی اور ملک میں بھی ایسے ہوتا ہے؟
کالم
کیا ججوں کی تعیناتی عدلیہ کا خانگی مسئلہ ہے؟
- by Daily Pakistan
- اکتوبر 14, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 54 Views
- 2 مہینے ago