کالم

کیا نگران حکومت غیرجانبدار ہے یا جانبدار؟

riaz chu

ایف آئی اے نے شاہ محمود قریشی وائس چیئرمین تحریک انصاف کو سائفر کیس میں گرفتار کر کے ہیڈ کوارٹر منتقل کردیاجبکہ وہ اس سے قبل بھی ایف آئی اے کو سائفر بارے اپنا بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
ان کی گرفتاری پر ممتاز صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے نگران وزیر اعظم کو خط لکھا کہ امید ہے آپ کی حکومت تحریک انصاف کے ساتھ نا انصافی نہیں کرے گی مگر دو دن بعد ہی شاہ محمود گرفتار ہوگئے۔ سائفر پر وہ پہلے بھی اپنا بیان ریکارڈ کر وا چکے ہیں اب انہوں نے اور کیا لینا ہے۔ سائفر لکھنے والا بندہ تو خود سرکاری ملازم ہے اور اپنی ملازمت پر موجود ہے۔ پہلے تو ان سے بات کرنی چاہیے۔ جہاں تک سائفر کی کاپی گم ہونے کا سوال ہے تو اس کے ذمہ دار سابق وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان جواب دہ ہیں جو حکومتی اداروں کی تحویل میں ہیں۔ پہلے ان دونو ں افراد سے تفتیش تو کر لیں ، شاہ محمود قریشی کی باری تو بہت بعد میں آئے گی۔
نگران حکومت اپنے وعدے کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ یکساں سلوک روا نہیں رکھ رہی۔ حکومتی ادارے جسے چاہتے ہیں گرفتار کر لیتے ہیں۔ جنگل کا قانون بنایا ہوا ہے۔ آئین و قانون سے روگردانی سے حالات مزید بگڑیں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انتخابات میں تاخیر سے متعلق شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پی ڈی ایم نے تاریخ کی بڑی غلطی کی۔ پی ڈی ایم نے ملک کو آئینی بحران سے دو چار کر دیا۔ سینیٹ انتخابات اور صدر مملکت کا انتخاب بھی انتخابات میں تاخیر سے متاثر ہوں گے۔ پہلے بھی انتخابات میں تاخیر کرنے کیلئے تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔ نگران حکومت آئین سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کرسکتی۔ نوے دن میں انتخابات کے بارے میں پیپلز پارٹی سے مشاورت کے لیے معاملہ کور کمیٹی میں لے کر جائیں گے۔ نوے دنوں میں انتخابات کیلئے دیگر سیاسی جماعتوں سے مشاورت میں کوئی حرج نہیں۔
یہ بات درست ہے کہ مردم شماری کے نتائج منظور کر لیے جانے کے بعد اب یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات کے انعقاد سے قبل نئی حلقہ بندیاں کرے تاہم یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ اس وقت ملک کس صورتحال کا شکار ہے اور جن بحرانوں نے ملک کو گھیر رکھا ہے ان کا حل کیسے فراہم کیا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ مارچ 2024ء میں پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات ہونے ہیں اور ان کے انعقاد سے قبل قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا وجود میں آنا ضروری ہے کیونکہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں ہی سینیٹ کا الیکٹورل کالج ہیں، لہٰذا ان کی غیر موجودگی میں سینیٹ کے انتخابات کا قیام ممکن نہیں ہو پائے گا۔ ویسے الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کے لیے جو شیڈول جاری کیا گیا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات فروری 2024ئ میں منعقد ہوں گے۔
وائس چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان پر دباو¿ ڈالا جا رہا ہے۔ پارٹی کے رہنماو¿ںاور ان کے اہل خانہ سے جو سلوک برتا گیا اس کا کوئی قانونی و اخلاقی جواز نہیں۔ رات 2 بجے بچوں کو سڑک پر کھڑے کیا گیا۔ کارکنوں کو بند کیا گیا اور فیکٹریوں کو سیل کیا گیا۔ ان کی فیکٹری سے ڈھائی ہزار خاندان کو گھر چل رہا تھا۔کسی رہنما کے بیٹے کو اٹھا لیا گیا اور اس پر تشدد کیا گیاجس کی وجہ سے بیٹے کو نہ چاہتے ہوئے بھی ویڈیو میسج ریکارڈ کروانا پڑا۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور اس کا نوٹس کون لے گا؟ چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے کہ واقعات کا نوٹس لیں۔ نگران وزیراعظم نے کہا تھا شفاف انتخابات کرائیں گے کیا ایسے ماحول میں شفاف انتخابات ہوسکتے ہیں؟ الیکشن کمیشن سے مطالبہ ہے کہ اگر لیول پلینگ فیلڈ نہیں ہے تو ایکشن لیں۔
مشترکہ مفادات کونسل اجلاس میں پیپلز پارٹی کی شمولیت کے بعد اب ان کے رہنما 90 دنوں میں انتخابات کی بات کر رہے ہیں۔ وکلاءبرادری بھی نوے روز میں انتخابات پر متفق ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی اس حوالے سے بیان دے چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے بھی ایک مقدمے کے دوران کہا کہ آئین کی روح جمہوریت ہے، کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے۔ ہماری تاریخ میں ہم حقوق کی قربانیاں دیتے رہے ہیں، 3 بار دے چکے ہیں اور پھر اس کے نتائج ہوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ عوام الناس کو اپنا فیصلہ بتانے کا موقع ملے، ہمیں خوشی ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس بات کا احساس ہے، آپ نے اپنا فرض ادا کرنا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آئندہ عام انتخابات کا بروقت انعقاد ہمیںنہ صرف بہت سے مسائل سے بچاسکتا ہے بلکہ پہلے سے موجود مسائل کے حل میں مدد بھی دے سکتا ہے۔ عوام اور ملک کی حالت سے یہ بات واضح ہے کہ دونوں ہی مزید مسائل کے متحمل نہیں ہوسکتے، لہٰذا اس وقت الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کی ساری توجہ صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد پر ہی ہونی چاہیے جس پر تمام جماعتوں کو اعتماد ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے