دنیا بھرمیں 9 اکتوبر کو ڈاک کا عالمی دن منایا جاتاہے، جس کا مقصد لوگوں کو بتانا ہوتا ہے کہ کس طرح ”ڈاک“ ہماری روزمرہ زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ہمیں روابط کے لیے اس کی کتنی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاک کے نظام کو بہتر بنانا، محکمہ ڈاک کی اہمیت اور اس کی کارکردگی کو اجاگر کرنابھی اس کے مقاصد میں شامل ہے ۔ ڈاک کا نظام باہمی روابط کیلئے ایک تاریخی اور عالمی نظام ہے جس کا حوالہ آج سے ہزاروں سال پہلے فرعون مصر کے ابتدائی دور سے ملتا ہے ، جب گھڑ سواروں کے ذریعے بہت دور تک پیغامات بھیجے جاتے تھے۔ بعد میں سینکڑوں سال تک پیغام رسانی کا کام کبوتروں سے بھی لیا گیا جب خط کبوتر کی گردن پر باندھ دیا جاتا اور وہ اسے منزل مقصود تک پہنچا دیتا۔ اور جب سائنسی دور کا آغاز ہوا تو دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ مواصلات میں بھی خاصی ترقی آئی، موٹر اور ریل گاڑیوں کی ایجاد کے بعد یہ ڈاک بھیجنے کا ذیعہ بنیں، اور پھر ٹیلی فون کے نظام کے ذریعے ٹیلی گراف کی ایجاد نے موٹر اور ریل گاڑی کی محتاجی بھی ختم کر دی۔ اس کے بعد وائرلیس ایجاد ہو گیاجو کسی تار کو واسطہ بنائے بغیر فضا میں پائی جانے والی ر یڈیائی لہروں کے ذریعے پیغام رسانی کے لیے کام آیا۔ اور پھر انٹرنیٹ اور موبائل فون کی ایجاد کے بعد تو برقی لہروں نے دنیا بھر کے مواصلاتی فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا۔ آج کی دنیا سکڑ کر چھوٹی سی سکرین میں سما گئی ہے ، صرف موبائل فون کی سکرین میں ۔ ہزاروں میل دور بیٹھا شخص فون،انٹرنیٹ ،سوشل میڈیایا لیپ ٹاپ کے ذریعے آپ سے یوں مخاطب ہوتا ہے جیسے ساتھ ہی بیٹھا ہو۔ آج جن سہولتوں سے ہم بہرہ ور ہو رہے ہیں ،کل کسی نے ان کا سوچا بھی نہ تھا۔ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ ڈاک کے ذریعے عید کارڈ بھیجے جاتے تھے ، جومدتوں تک ایک میزوں پر سجے ایک دوسرے کی محبت کی یاد دلاتے۔ لیکن یہ دورماضی میں کہیں کھو گیا، اب ایک ایس ایم ایس یا وٹس ایپ سے ہی کام چل جاتا ہے ، دو انگلیا ں چلائیں اور بات کہہ دی۔ ایک منٹ میں مبارکباد بھی سینڈ کر دی جاتی ہے، اور غمی میں شرکت بھی منٹوں میں ممکن ہے ۔ یہاں واضح رہے کہ ڈاک کا نظام جوکہ ماضی میں باہمی روابط کا واحد ذریعہ رہا ہے، اور اس کے ذریعے سے ہی دنیا بھر کی معاشی و اقتصادی ترقی ممکن ہو سکی ہے۔ محکمہ ڈاک خطوط کے ذریعے عوام کو آپس میں ملانے کے حوالے اس زمانے میں موثر ترین کردار ادا کر تا آیا ہے جب خط کوآدھی ملاقات تصور کیا جاتا تھا۔ سخت گرمی اور سردی میں میلوں کی مسافت طے کرکے پیغام پہنچانے والا ڈاکیا جو محبت کا امین کہلاتاتھا آج اس کی رومانوی حیثیت اور تاریخی کردار کو بھی لوگ ہر گزرتے دن کیساتھ بھولتے جارہے ہیں ۔ آج زیادہ تر سرکاری ادارے اور عدالتیں ہی ڈاک کے نظام سے استفادہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یونیورسل پوسٹل یو نین ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں ڈاک کا 5 سے 11 فیصد حصہ عام لوگوں کی جانب سے جبکہ 80فیصد حصہ حکومتی اداروں کی جانب سے بھیجے گئے خطوط اور کاغذات پر مشتمل ہوتا ہے۔ پاکستان پوسٹ نے ملک بھر میں ڈاک کے نظام کو جدید بنانے کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے۔ ان شعبوں میں پاکستان پوسٹ پرائیویٹ شعبے کی شراکت سے محکمہ ڈاکخانہ جات کو فعال و متحرک کرے گا اور عوام الناس میں اس محکمے کی کھوئی ہوئی افادیت و اہمیت کو بحال کیا جائے گا۔ محکمہ ڈاک نے صارفین کو ان کی دہلیز پر ڈاک ،رقم اوردوسرے سامان کی بروقت فراہمی کیلئے اپنی کارکردگی بہتربنانے کی غرض سے مختلف اقدامات بھی کئے ہیں، اور الیکٹرانک منی آرڈر سسٹم کو تمام جی پی اوز تک توسیع دی گئی ہے۔ صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے فیکس منی آرڈر، ارجنٹ منی آرڈر اور آرڈینری منی آرڈر کی زیادہ سے زیادہ حد میں اضافہ کیاگیا ہے۔لیکن ڈاک کے نظام میں مزید بہتری اور جدت لانے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں موجود ڈاکخانوں کو ای ٹکٹ اور منی بنک کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ پوسٹ آفسوں کے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرکے اور ان میں دور جدید کی مناسبت سے جدت پیدا کرکے ہی ڈاک کے نظام کی بقاءکو یقینی بنایا جاسکتاہے ۔