کالم

کیا کیا بتائیں سچ تو یہ ہے

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی جانب سب کی نظریں ہیں کہ اب جوڈیشری کے حالات بدلیں گے ۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر آتے ہی چیف صاحب وکلا اور لا افسروں کے ساتھ غصہ کرتے دکھائی دیئے ہیں۔ کبھی ڈانٹ ڈپٹ کبھی جرمانے کی سزا سے وکلا کو نوازا جا رہا ہوتا ہے۔ مانا کہ وکلا کا قصور ہوتا ہے لیکن یہ بھی ماننا ہوگا کہ وکلا ہی تمام بیماریوں کی جڑ نہیں ہیں۔ کیا اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ آپ روز وکلا کی سرزنش کریں انہیں بے توقیر کریں ۔ آپ غریب عوام کو جلد انصاف دینے آئے ہیں جو جوڈیشری میں خامیاں ہیں انہیں دور کرنے آئے ہیں۔ آپ وکیل دیکھ کر نہیں کیس دیکھ سن کر فیصلہ کریں ۔ جن حالات سے گزر کر آہ یہاں تک پہنچے ہیں یہ کسی کرامت سے کم نہیں جس کے مخالف ملک کے پانچ بڑے ہوں اور پھر بھی وہ شخص چیف جسٹس آف پاکستان بن جائے تو پھر یہ قدرت کا انعام اور اعجاز ہی ہے۔موجود صورت حال میں ٹکراو¿ سے بڑاحادثہ پیش آ سکتا ہے ۔ جبکہ آپ کو ہم سب کو اس ملک کو پہلے سے ہی بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ہم کسی مزید حادثے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔قوم کی آپ سبھی ججز سے درخواست ہے کورٹ کا ماحول خراب ہونے سے بچائیں ۔جمعرات کے روز ایک مقدمہ میں سماعت کے دوران پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ثنا اللہ زاہد نے چیف جسٹس کی سخت آبزرویشن کے بعد اس لاءافسر نے استعفیٰ دینے کا کہہ دیا کہا اگر نہیں سننا تو میں استعفیٰ دے دیتا ہوں۔ عدالت کو چائیے کہ اس قسم کی نوک جھونک سے پرہیز کریں۔جسٹس اطہر من اللہ کاکردار قابل داد ہے۔وہ کوشش کرتے ہیں ماحول خوشگوار رہے۔ ہم وکلا کی چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔ اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو بہتری آ سکتی ہے۔ ملک پہلے ہی بے شمار بحرانوں کا شکار ہے سب جانتے ہیں یہاں الیکشن نہیں سلیکشن ہوتا ہے۔ بس چل رہی ہے اور چلتی کا نام گاڑی ہے۔ ہمارے بس میں نہیں ہے کہ اپنی مرضی کا ڈرائیور گاڑی کو چلانے کے لئے بیٹھا سکیں۔انہی کا ڈرائیور ہوتا ہے جو ہمیں قرض دیتے ہیں ۔انہی کے یہ ملازم غلام ہوتے ہیں۔ صرف نام مختلف ہوتے ہیں۔ ہم ایک مسلم ملک کے شہری ہیں سب کو جنت میں جانے کا سو فیصد یقین ہے ۔ شہد اور دودھ کی وہاں نہروں سے انجائے کرنے کا یقین ہے، موجودہ کی فکر نہیں ہے۔ فیوچر ہمارا برائٹ ہے۔ مشکل ان کے لیے ہے جن کا کوئی دین نہیں مذہب نہیں۔ جو جنت حوروں پر یقین نہیں رکھتے۔جن کےلئے یہی دنیا جنت اور جہنم ہے۔ وہی اس کو سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ ہمیں اس دنیا سے کوئی غرض نہیں ابدی دنیا تو آخرت کی ہے، لہٰذا کیوں ہم اس پر وقت ضائع کریں۔ انصاف نہیں دیا تو اللہ اسے پوچھے گا۔ ملاوٹ کر رہا ہے فراڈ کر رہا ہے تو اللہ اسے پوچھے گا۔ ہم یہاں تو کچھ کرنے آ ئے ہی نہیں ہیں۔ بادشاہ سلامت آتے ہیں حلوے مانڈے کھاتے ہیں جب انہیں کہا جاتا ہے بس وقت آپ کا پورا ہوگیا ہے اور اب کچھ وقت جیل میں گزاروں پھر جہاں جانا پسند کروگے چلے جانا۔ ایسا وہ کرتے ہیں۔ آجکل پوچھا جا رہا ہے کیا الیکشن ہونگے اور کب ہونگے۔کیا چیف جسٹس کے آنے سے جوڈیشری میں پائی جانے والی مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا یا نہیں۔سپریم کورٹ کے تمام ججز میں اس وقت ایک بھی جج غیر مسلم نہیں ہے جبکہ کسی زمانے میں غیر مسلم جج جب ہوا کرتے تھے۔ان پر آج بھی کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ہے۔ان چند ماضی کے غیر مسلم ججز کی طرح کیا ہی اچھا ہو غیر مسلم جج بھی لگا دیئے جائیں ۔ ضروری نہیں وہ وکالت قانون آئین کو جانتے ہوں جو جانتے ہیں وہ کون سا اس پر عمل کرتے ہیں قاضی صاحب سے ہم سب کو بہتری کی امید ہو چلی ہے ۔ آپ سب سے مشورے کرتے دکھائی دے رہے ہیں مگر لگتا یہی ہے کرتے اپنی ہی ہیں مگر پھر بھی آپ سے گزارش کرتے ہیں ہے کہ کچھ ہماری بھی سن لی جائے۔ 1۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب نے اردو کو آئین کے مطابق قومی زبان کا درجہ کورٹ آرڈر لکھ کر دیا تھا مگر عمل اس پر نہ خود کیا اور نہ ابھی تک اس پر آئین کے مطابق عمل ہوا۔ان کی ججمنٹ فیض آباد دھرنے والی ججمنٹ کم کی نہیں۔ لہٰذا آپ خود بھی اسے قومی زبان تسلیم کریں عدلیہ پر بھی اسے نافذ کریں اور تمام ملکی اداروں کو اس پر عمل کروانے کا حکم صادر فرمائیں ۔ 2۔جن ممالک میں کیس سنتے ہوئے جج کے ”کان ہاتھی جیسے اور زبان چڑیا جیسی “ہوتی ہے وہاں کی عدالت کے اچھے فیصلے دیکھنے کوملتے ہیں ۔ لہٰذااس پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں سے بھی عمل کروائیں۔ 3۔ججز جن کے کیس جوڈیشل کونسل میں الزامات کی وجہ سے پڑیں ہیں۔ انہیں انصاف فوری دیں۔ 4۔سپریم کورٹ ججز کی تعداد نہ صرف پوری کریں بلکہ ججز کی تعداد میں مزید فوری اضافہ بھی کریں۔ جو ججز ریٹائر ہیں انہیں واپس اسی پنشن میں صرف ان سے کریمنل اپیلیں سننے کا کام لیں ۔موجودہ ججوں کی تعداد سے 65 ہزار کیس کا خاتمہ کرنا ممکن نہیں۔5،سنگل بنچ کو بھی چلا کر دیکھ لیا جائے ۔ پھانسی کی اپیلوں کے کیس اور سروس کے مقدمات کو جلد سنا جائے۔ ارجنٹ میٹر کے کیس سنے کےلئے فوری ایک بنچ روزانہ کی بنیاد پر بنایا جائے۔6: جن ججز پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ کیس جوڈیشل کونسل میں ہیں۔ ایسے جج کو سزا سے پہلے خود نوکری چھوڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ایسے جج کی پنشن مراحات بند کر دی جائیں۔ جائدادیں قبضے میں لے لی جائیں۔ انہیں جیلوں میں بند کریں۔8: جس جس شخص نے آئین توڑا ہو اسے گھر جانے کے بعد بھی گھر سے بلا کر سزا دی جائے۔ جس جج نے غیر آئینی فیصلے لکھے ہوں انکی پنشن اور مراحات ختم کی جائیں۔ ان پر قبرستان میں صفائی کرنے کی ڈیوٹی لگائی جائے ۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ عبداللہ عباسی نے اپنی وکالت کے تجربے کی روشنی میں جوڈیشری میں بہتری لانے کی تجویز دی ہیں ،آپ کا کہنا ہے ۔ نظام عدل کے اصل سٹیک ہولڈرز عوام ہیں لہٰذا عوام کو ہرممکن سہولیات بہم پہنچائی جائیں ،انصاف کو آسان اورسستا بنایا جائے۔ عوام زرکثیر خرچ کرکے عدالتوں تک انصاف کےلئے رسائی حاصل کرنے آتے ہیں مگر وہاں ان کی شنوائی ایک دومنٹ سے زائد نہیں ہوپاتی ۔ یہاں عدالت انصاف میں ایسی پریکٹس دیکھنے میں آتی ہے۔ ججز بتا رہے ہوتے ہیں ”ہم فائل گھر سے پڑھ کر آتے ہیں۔ اسکی آڑ میں آتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہیں وکلا کو سنا ہی نہیں جاتا اور کیسز یا تو تاخیر کاشکار ہوجاتے ہیں یا ججز انصاف نہیں کر پاتے اور اس طرح پہلے سے بنا ئے گئے ذہن کو بدلنا وکلا کےلئے مشکل کام ہے جو کہ انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے ۔ آپ اس وقت تک فیصلہ نہ کیجئے جب تک دونوں فریقین کو اچھی طرح سن نہ لیا جائے۔ججز کا پہلے سے پڑھ کر آنا ہی کیس کی اصل خرابی کی جڑ ہے۔ ججز کیس سنتے وقت وکلا کو سنا کریں ۔ہر وکیل کو کم ازکم پانچ منٹ بناکسی رکاوٹ کے اپنے کیس میں دلائل دینے کا موقع دیا کریں اور اس کے بعد بنچ کی جانب سے جو سوالات ہوں وہ کیے جائیں تاکہ مقدمہ کے ہر پہلو کو دیکھا اور پرکھاجاسکے۔ اگر کسی بھی مقدمہ میں کوئی ہرجانہ/کاسٹ ڈالنا ضروری سمجھا جارہا ہو تو پہلے اسے شوکاز نوٹس دیں۔عام طور پر مقدمہ کا فیصلہ آنے پر پتا چلتا ہے کہ کسی مقدمہ میں کاسٹ بھی ڈالی جاچکی ہے۔ ججز کی آبزرویشن کا بے دریغ استعمال نہ کیا جائے۔وکلا بھی اپنے کیس کی بھرپور تیاری کرکے آیا کریں۔وکلا التوا کی درخواست دینے سے پرہیز کریں۔ کیس میں کہانیاں نہ سنائیں ٹو دی پوائنٹ اور لا ءپر بات کیا کریں۔ کیس کے دوران ججز اور وکلا ایک دوسرے کی عزتِ نفس کا ضرور خیال رکھیں۔ مقدمات میں جہاں بے جا تاخیر انصاف کی فراہمی کیلئے نقصان دہ ہے وہیں بے جا عجلت بھی فریقین کے مقدمات کیلئے خطرناک ہے درج بالا تجاویز پر عمل جسٹس ڈیلوری سسٹم میں مزید بہتری لے کر آئیگی۔دعا ہے موجودہ جوڈیشری سسٹم میں بہتری آئے۔ ججز صاحبان وکلا کے ترجمان ہیں وکلا سے امتیازی سلوک نہ کریں انہیں بھی گڈ ٹو سی یوں نہیں تو گڈ ٹو ہاف یو کہہ دیا کریں۔سپریم کورٹ بنچ ون کے کورٹ روم کے ساﺅنڈ سسٹم کو ٹھیک کروائیں تصویر آ رہی ہوتی ہے آواز نہیں سن پاتے ۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناﺅں
ہزاروں ہیں شکوے کیا کیا بتاﺅں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے