تحریر: عرفان صدیقی۔
چوپالوں میں بیٹھے، حقے کے کش لیتے گپ باز ، ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ۔ پارلیمنٹ کے ارکان آپس میں سرگوشیاں
کرتے ہیں۔ ادھر ادھر سے کرید لگانے کی سعی نا کام کے بعد کہنہ مشق صحافی الجھی ہوئی تھتی سلجھانے کے لئے ایک دوسرے سے الجھتے
رہتے ہیں ۔ سیاسی موسموں کی پہچان پرکھ رکھنے والے مبصرین اسی ادھیڑ بن میں سر کھجاتے ہوئے سو جاتے ہیں۔ کوئی حاتم طائی نہیں جو
اس حمام بادگرد کا راز پائے ۔ ہر ایک کو بظاہر یہی لگتا ہے کہ دور جاتے مسافر کی طرح 9 مئی کے قدموں کی چاپ ہولے ہولے معدوم
ہوتی جارہی ہے۔ سوختہ بخت کور کمانڈر ہاؤس کی راکھ میں دبی چنگاریاں ٹھنڈی پڑ چکی ہیں۔ قائداعظم کے پیانو کا بے ساز و آواز ڈھانچہ
شاید کسی انبوہ خاشاک کا حصہ بن چکا ہے۔ فضائیہ کے زخمی طیاروں کی مرہم پٹی کر کے نیا رنگ وروغن چڑھا دیا گیا ہے۔ شہداء کی تاراج شدہ
یادگاریں نئی تزئین و آرائش کے ساتھ پھر سے تعمیر کی جاچکی ہیں۔ قوم کے گل کے لئے اپنا آج قربان کر دینے والے جانبازوں کے شکستہ
مجسموں کی کرچیاں سمیٹی جا چکی ہیں۔ دس ماہ اور تین دن کی گردنے 9 مئی کو بڑی حد تک ڈھانپ لیا ہے۔ کبھی کبھی کوئی کور کمانڈر کانفرنس،
شش و پنج میں پڑے بے یقین اور شک زدہ لوگوں کو جھنجھوڑتی اور بتاتی ہے ہرگز نہیں ۔ 9 مئی کے کرداروں کو کسی طور معاف نہیں کیا جائے
گا۔ 263 ویں کور کمانڈر کانفرنس نے بھی اعلامیہ جاری کیا وزیر اعظم پاکستان کے عزم کے مطابق 9 مئی کے منصوبہ سازوں،
اشتعال دلانے والوں ، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو یقینی طور پر قانون اور آئین کی متعلقہ دفعات کے
تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ لوگ 9 مئی کی گھناؤنی سرگرمیوں پر پردہ نہیں ڈال سکیں گے ۔“
اُدھر دس ماہ اور تین دن کے دوران ایک ہی نفس مضمون کے اعلامیوں کو محض صحرا کی بازگشت خیال کرنے والوں کے حوصلے دو چند
ہو چکے ہیں۔ آرمی چیف سید عاصم منیر کا تختہ الٹ کر ایک بے چہرہ انقلابی نظام نافذ کرنے کے لئے ، فوجی تنصیبات پر حملوں کے ذریعے فوج
کے اندر تلاطم پیدا کرنے کی باغیانہ سازش تیار کرنے والے کردار، بے خوف ہو کر کونوں کھدروں سے نکل آئے ہیں۔ منصوبہ سازوں،
زہر پاشی کرنے والوں ، فوج کے خلاف منظم پراپگینڈا مہم چلانے والوں ، لوگوں کو بغاوت پر اکسانے والوں اور 9 مئی کی غارت گر سپاہ کا
حصہ بنے والوں کی بڑی تعداد 8 فروری کے بہشتی دروازے کے ذریعے منتخب جمہوری ایوانوں میں آبیٹھی ہے
ایوانوں میں کسی کو ٹافی چوسنے، پان کھانے ، چیونگ گم چبانے حتی کہ پانی پینے تک کی اجازت نہیں ۔ یہ سگریٹ پھونکتے ،9
مئی کے مرکزی کردار کی تصویریں ڈیسکوں پر سجاتے ، ناشائستہ آوازے کتے ، لغونعرے لگاتے اور 9 مئی کی آگ کو اپنے لہجوں میں سموئے
آتش بیانی کرتے رہے ہیں۔ سرشام ٹی وی ٹاک شوز میں جلوہ گر ہوتے اور بنیادی انسانی حقوق کا درس دیتے ہیں، اس لئے کہ اب وہ
استحقاق یافتہ منتخب عوامی نمائیندے ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ 8 فروری نے 9 مئی کو کہنی مار کر بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔
سید عاصم منیر سے بغض و عداوت کے گوناں گوں اسباب میں سے ایک کا تذکرہ بہت عام ہے۔ آئی۔ایس ۔ آئی کے سربراہ کے
طور پر لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کے پاس اسے ٹھوس اور مصدقہ شواہد آئے کہ وزیراعظم عمران خان کا گھر ، بدترین کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے تو منبر
انہوں نے آرمی چیف جنرل باجوہ سے بات کی کہ آپ یہ سب کچھ وزیر اعظم کے علم میں لائیں۔ باجوہ صاحب دُوراندیش، شخص تھے۔ کہا
تم کرلو اس گمانی میں کہ عمران خان دیانتی کونہ تم خود بات کر لو ۔ راست مزاج اور صاف گو جنرل عاصم ، اس خوش گمانی میں کہ عمران خان کرپشن اور بد دیانتی کو سخت ناپسند کرتے
ہیں، نا قابل تردید شواہد کا پلندہ اٹھائے وزیر اعظم ہاؤس پہنچے۔ کرپشن کتھا بیان کی اور یہ جنرل عاصم کے نامہ اعمال کا سیاہ ورق بن گیا۔
ایک واقعہ اس سے پہلے بھی پیش آچکا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے دوبار جنرل عاصم سے کہا کہ میرے فلاں فلاں سیاسی حریف پر غداری یا
کسی بھی طرح کے سنگین مقدمے قائم کر کے انہیں جیل میں ڈالو۔ جنرل عاصم منیر طرح دیتے اور ٹالتے رہے۔ جب تیسری بار خان
صاحب نے آئی ۔ ایس ۔ آئی کے سربراہ کو رو برو بٹھا کر تحکمانہ رعونت کے ساتھ یہی حکم دیا تو جنرل نے بھی ترکی بہ ترکی کہا ”مسٹر پرائم
منسٹر ! میں نے کسی اور بات کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ آئی ایس آئی کے چیف کا کام آپ کے سیاسی حریفوں پر جھوٹے مقدمے بنا کر انہیں
جیلوں میں ڈالنا ہر گز نہیں۔ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ جنرل عاصم منیر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ ”سوری سر کہتے ہوئے وزیر اعظم کو سلیوٹ کیا اور
کمرے سے نکل گئے ۔ خان صاحب کے دل پر لگنے والے اس گہرے زخم سے ابھی لہو رس ہی رہا تھا جب سید عاصم نے خانگی کرپشن کی
پٹاری بھی کھول دی۔ وزیر اعظم نے فرمان جاری کیا ۔ اس گستاخ اور نافرمان جرنیل کو فوراً آئی۔ایس۔ آئی سے نکالو۔“ سو صرف سات
ماہ نو دن بعد ایک نیک نام افسر کو بے مروت انداز میں آئی ۔ ایس ۔ آئی سے فارغ کر دیا گیا۔ یہ پوری پاکستانی تاریخ میں کسی بھی
آئی ایس ۔ آئی سربراہ کا مختصر ترین عرصہ تھا۔
نتقم مزاج وزیر اعظم نے جنرل سید عاصم منیر کی سرکشی کو کبھی معاف نہ کیا۔ بطور آرمی چیف اُن کی تقرری کو کوچہ و بازار کا
موضوع بنایا۔ اعلان سے دو دن پہلے لانگ مارچ کرتے ہوئے راولپنڈی پہنچے۔ سعودی عرب کو بھڑکانے کی سازش کا حصہ بنے۔ اپنے
پشتیبانوں سے مل کر 9 مئی کی سازش تیار کی۔ نشانہ کوئی بھی ہو ، در حقیقت یہ ریاست، جمہوریت اور فوج کے کے نظم نظم وضبط کے خلاف بغاوت تھی
جونا کام ہوگئی۔ اس نوع کی بغاوتیں کامیاب ہو جائیں تو اپنا سکہ جمانے کے لئے سفا کا نہ حربے اختیار کرتی ہیں۔ نا کام ہو جائیں تو سنگین تر
سفا کی کانشانہ بن جاتی ہیں۔ یہ ہماری تاریخ کی واحد بغاوت ہے جو جزوی طور پر کامیاب اور حتمی طور پر نا کام ہوگئی لیکن فوج کے چند اعلی
افسران کے سوا ، آج تک کسی ایک بھی سول کردار کو سزا نہیں ہو سکی ۔ سزا تو کیا کسی ایک پر بھی 9 مئی کے حوالے سے قانونی کارروائی ہوتی
دکھائی نہیں دی۔
اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عمران خان بھی 9 مئی سے کلی طور پر بری الذمہ ہونے کا دعوی کرتے اور کور کمانڈر کانفرنس کے
اعلامیے کی تائید کر رہے ہیں۔ عدالتی کمیشن قائم کرنے کے مطالبے کر رہے ہیں ۔ سی ہی کیمروں کی فوٹیج سامنے لانے کا چیلنج دے رہے ہیں
اور یاد دلا رہے ہیں کہ امریکہ نے تو کیپیٹل بل میں گھس جانے والوں کو سخت سزائیں سنادی تھیں ، ہماری حکومت کیوں چپ ہے؟
کیا 8 فروری 9 مئی کو نگل گیا ہے یا یہ محض واہمہ ہے؟ بظاہر کچھ بھی لگے، دیوار پر کندہ حقیقت یہ ہے کہ 9 مئی کے کرداروں کو لبی
چھوٹ ملنے کا عرصہ تمام ہوا۔ دس ماہ تین دن کی آسودگی سے حوصلہ پانے والوں کو خبر ہو کہ 9 مئی قانون کی تمام تر قوت سے لیس ہو کر
حرکت میں آنے کو ہے ۔ 8 فروری نے ایک دریچہ ضرور کھولا تھا لیکن قیدی نمبر 804 نے اس کا رخ بھی آتش فشانی پہاڑوں کی طرف موڑ
کر دور جاتے 9 مئی کو واپس بلا لیا ہے