کالم

گارنٹیوں اور یقین دہانیوں کے چراغ

وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر قیادت نگران کابینہ کا پہلا اجلاس جمعة المبارک کی صبح ہو چکا ہے جس میں اول و آخر سانحہ جڑانوالہ زیر بحث رہا انوار الحق کاکڑ کا کسی لسٹ اور کسی ٹاک شو میں نام نہیں تھا مگر قرعہ فال ان کے نام نکلا۔بہرحال وہ پڑھے لکھے، محبِ وطن اور راست گو شخص ہیں۔ ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ جو کام ان سے نہ ہو سکا اس پر وہ صاف بول پڑیں گے۔کابینہ میں موجود ناموں پر غور کریں تو بلا جھجک یہ کہنا پڑے گا کہ یہ عمدہ بیلنس اور بہت ہی موزوں کا بینہ ہے۔ اور دوسری خوبی یہ ہے کہ اس میں اقلیتیوں اور کشمیر کی نمائندگی بھی موجود ہے۔ ایک دو ناموں پر اعتراض ہو رہا ہے مگر پاکستان جیسے ملک میں سارے فرشتے ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں۔ باالخصوص خارجہ امور کےلئے جلیل عباس جیلانی کا انتخاب بہت زبردست ہے۔ اس وزارت کے لیے ان سے زیادہ تجربہ کار اور بین الاقوامی تعلقات رکھنے والا شاید ہی کوئی اور ہو۔ قوی یقین ہے کہ وہ خارجہ امور کو عمدگی سے چلائیں گے۔ اسی طرح اطلاعات و نشریات کےلئے مرتضی سولنگی بھی بہت اچھی چوائس ہیں۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے۔ اگر میڈیا کو ٹھیک طریقہ سے سنبھال لیا تو ان کا بڑ ا کارنامہ ہو گا۔ہر کوئی جانتا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں محرومیوں کی وجہ سے شدید مایوسیاں ہیں۔ بے حد پسماندگی ہے۔ کوئٹہ کا اگر دس کلو میٹر کا ایریا نکال دیں تو پورے صوبے میں کسی طرح کی ترقی نہیں۔ ادھر تعلیم ہے اور نہ ہی بنیادی صحت کی سہولیات، بدامنی ، دہشت گردی اور لاقانونیت ہے۔ ان گنت مسنگ پرسنز ہیں۔ ہزارہ برادری اپنی جگہ پریشان رہتی ہے کہ کسی بھی وقت ان پر کوئی افتاد نہ آن پڑے۔ ایسے حالات میں بلوچستان سے وزیراعظم، چیئرمین سینٹ اور وزیرداخلہ کا ہونا بڑی بات ہے اور پھر سونے پر سہاگہ ستمبر میں اسی صوبہ سے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس کے عہدہ پر ترقی پاجائیں گے۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ یہ سب مل کر صوبہ بلوچستان کےلئے بھرپور کام کر سکیں اور بے شک محدود و مختصر عرصہ ہی دستیاب کیوں نہ ہو ایسے عملی اقدامات اٹھانے کی کوششیں کریں جس سے صوبے کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ جائے۔ کوئی بھی حکومت یا وزیراعظم کابینہ کے بغیر نا مکمل ہوتا ہے چنانچہ اس نقطہ نظر سے ملک میں تقریبا ً سات دن کوئی حکومت نہ تھی جبکہ اس دوران پیٹرول کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ سٹاک مارکیٹ مسلسل خسارے میں ہے۔ یہ وہ ملکی نقصان ہے کہ جس کا ازالہ اتنی جلدی ممکن نہ ہو اور پھر میاں شہباز شریف کی حکومت محض اپنے کیسز ختم کرانے، اپوزیشن کو کچلنے اور عوام کا خون نچوڑنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہ کر سکی۔ عیاشیاں ان کی مکمل طور پر جاری رہیں، چاہئیے تو یہ تھا کہ سادگی اختیار کی جاتی اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جاتا۔ بہرحال میاں شہباز شریف نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ میں گذشتہ تیس برس سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ ہوں چنانچہ خوشامد کا پہلو اپنی جگہ مگر وہ صفائی سے یہ بات سمجھاگئے کہ میں مکمل طور پر انہیںطاقتوروںکا نمائندہ ہوں۔ جو سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔معلوم چلا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی چیف جسٹس آف پاکستان سے طویل ملاقات ہوئی ہے۔ ملاقات کی تفصیلات تو ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں۔ مگر یہ تھی اہم نوعیت کی۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نے نئی مردم شماری کے مطابق کام کرنے کےلئے ایک شیڈول بھی جاری کر دیا ہے جس کے مطابق بظاہر 90یوم میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے، مگر دوسری جانب گذشتہ 2/3 دنوں میں رانا ثنا اللہ کے ٹی وی انٹرویوز غور سے دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ میاں نواز شریف ستمبر کے دوسرے یا تیسرے ہفتے تک ملک آ جائیں گے۔ بقول رانا ثنا اللہ ہر طرح کی گارنٹیاں اور یقین دہانیاںوغیرہ ہو چکی ہیں۔ ذرائع یہ بتارہے ہیں کہ اسکے دو مطلب ہیں ایک کا تعلق میاں صاحب کی ذات سے اور دوسرا ان کے مطالبات یعنی اپوزیشن کی بڑی جماعت کے چیئرمین کی نا اہلی۔ سز ا اور ان کی پارٹی پر پابندی کے ساتھ بیلٹ پیپر سے اس مخصوص نشان کا خاتمہ بھی ہے۔ اگر رانا ثنا اللہ کی بات کو درست مان لیا جائے تو اس کے بھی دو مطلب لیے جا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں یہ نقطہ سمجھانے کی کوشش کروں یہ ذہن میں رکھیے گا کہ عابد زبیری ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی طرف سے ایک رٹ جمع کروا دی ہے کہ الیکشن 90روز میں یقینی بنائے جائیں۔ گو ابھی اس درخواست پر نمبر نہیں لگا مگر گمان یہی کیا جاتا ہے کہ اسے سماعت کے لیے منظور کر کے جلدی سنا جائے گا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ باریک بینی سے آگے بڑھے گی۔یہ بھی قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس اپنی ملازمت کے اختتام تک اس پر فیصلہ نہ دیں۔ نئے چیف حالات کے مطابق فیصلہ دیں گے۔ تب تک اگر نواز شریف آ گئے اور وعدے پورے ہوتے نظر آئے تو سپریم کورٹ ، الیکشن کمیشن کو کوئی بھی قانونی عذر سامنے رکھتے ہوئے پرانی مردم شماری پر الیکشن کرانے کا حکم دے سکتے ہیں۔ اس طرح میدان بالکل صاف دیکھ کر نومبر میں انتخابات ہو سکتے ہیں اور میاں صاحب چوتھی بار وزیراعظم بن سکیں گے۔ بہرحال حتمی کیا ہوتاہے یہ وقت ہی بتائے گا۔ تاہم لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے کےلئے تمام ٹاک شوز میں ایک منصوبہ بندی کے تحت اس طرح کی بحث کرائی جا رہی ہے کہ یہ معلوم چلے کہ رواں سال الیکشن ناممکن ہیں، اس سے سیاسی ردِعمل بھی سامنے آئے گا۔ جس کی سنگینی دیکھی جا سکتی ہے۔ اگر زیادہ اعتراض ایسے لوگوں کا آیا جو کبھی آنسو بہاتے ہیں، کبھی بوجھل دل سے ووٹ ڈالتے ہیں، اور کبھی لمبی لمبی لچھے دار تقاریر کرتے ہیں۔ مگر مجال ہے کہ استعفیٰ دیں تو پھر خیر ہی سمجھیں۔ اور دوسرا کچھ چہیتے ایک دوسرے کو خط لکھ کر اپنا احتجاج رجسٹر کروانے کی کوشش کرتے ہیں، قومی ان سب باتوں کو دیکھتی جائے اور زیادہ پریشان نہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے