پنجاب کے نگران وزیر اعلی محسن نقوی جس تیزی سے عوام کی خدمت میں مصروف ہیں اگر اسی طرح ان سے پہلے والے بھی کام کرتے تو آج ہم مشکلات کی بجائے خوشحالی کے سفر پر گامزن ہوتے کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب محسن نقوی کسی نہ کسی سرکاری ہسپتال کا دورہ نہیںکرتا بلاشبہ ان کے دوروں سے نہ صرف ہسپتالوں کا انتظام بہتر ہوا بلکہ وہاں پر بیٹھے ہوئے جاگیردارانہ ذہنوں والے ایم ایس اور مختلف پروفیسروں سمیت ڈاکٹروں کا رویہ بھی کچھ بدلا ہوا ہے لیکن نچلا عملہ ابھی تک ویسے کا ویسا ہی ہے مریضوں سے بدتمیزی اور چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے چکر پر چکر لگوانا ابھی بھی جاری ہے ہسپتالوں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ ہر غریب انسان کا سرکاری ہسپتال میں آنا جانا لگا رہتا ہے کبھی اپنے لیے تو کبھی کسی عزیز یا دوست کی خاطر اور جو ماحول وہاںہوتا ہے اب ہم بھی اس کے عادی ہوچکے ہیںبچپن سے لیکر جوانی تک سرکاری ہسپتالوں میں ہمیشہ عزت نفس مجروع ہی ہوتے دیکھی بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم ہسپتال میں نہیں بلکہ کسی تھانے میں اپنا علاج کروانے آگئے ہیں لاہور کے ہسپتال اس لیے منفرد ہیں کہ ہر بڑے سے بڑا افسر یہاں موجود ہے لیکن اسکے باوجود ہمارے ہسپتالوں کی حالت نہیں بدل سکی اور جو دور دراز کے علاقوں کے ہسپتال ہیں وہ تو کسی کھاتے میں ہی نہیں عمارت ہے لیکن ڈاکٹر نہیں اکثر مقامات پر ڈاکٹر صرف کاغذات میں ہی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں گائنی کا شعبہ ہے تو کوئی سٹاف نہیں اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر ان علاقوں میں جانا چاہتا ہے ہمارے اکثر بی ایچ یو اور آر ایچ یوتو عطائی ڈاکٹر کے کلینک سے بھی گئے گذرے ہیں انکی تفصیل سے پہلے صوبائی دارالحکومت لاہور کے صرف ایک ہسپتال کا حال پڑھ لیں اسکے بعد باقی ہسپتالوں کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں خاص کر ان ہسپتالوں کا جو ہمارے دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں ہیں جن میںسے ایک کا میں بھی ذکر کرونگا مگر پہلے صرف ایک جھلک گنگا رام ہسپتال کی جہاں مریضوں کو پریشان کرکے ہسپتال انتظامیہ خوشی محسوس کرتی ہے ایم ایس صاحب نے توہر وقت اپنے دفتر کے باہر دو سیکورٹی گارڈ اور دو ہسپتال کے ملازم کھڑے کیے ہوتے ہیں تاکہ کوئی غریب مریض ان سے مل نہ سکے جب تک ہسپتال کا سربراہ اپنے دروازے مریضوں کے لیے نہیں کھولے گا تب تک اسے اپنے عملے کی حرکات کا کیا اندازہ ہوسکے گا اس ہسپتال کے ڈاکٹر کی بات ہی چھوڑیں یہاں تو خاکروب اور وارڈ کے باہر کھڑا ہوا چوکیدار ہی اپنے آپ کو ہسپتال کا مالک سمجھتا ہے مریضوں کے لواحقین سے پیسے مانگنا ثواب کا کام سمجھ کر کرتے ہیں یہاں کے سی ٹی سکین ،ایم آر آئی اور لیبارٹری کے ملازم مریض کو دیکھتے ہیں ناگواری کا اظہار کرنا شروع کردیتے ہیں مین گیٹ پر کھڑے ہوئے سیکیورٹی گارڈ ز کا رویہ ایسے ہوتا ہے جیسے یہاں مریض نہیں آرہے بلکہ جانور آرہے ہیں ہسپتال کے باتھ رومز کے قریب سے ہی گذر جائیںتو طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے ہسپتال کی کینٹین کے اپنے ریٹ ہیں اور مفت کی دوائی نہ ہونے کے برابر ہے اگر کہیں مل بھی رہی ہے تو اس کے لیے بھی دوائی دینے والے کی گھورتی ہوئی نظروں سے ڈر لگنے لگتا ہے بچے کی پیدائش پر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گھروالوں سے زیادہ ہسپتال والوں کو مسرت ہوئی ہے مبارک باد دینے والوں کو پیسے نہ دیں تو کپڑے پھاڑنے تک آجاتے ہیں بلڈ بنک سے خون کا ملنا کے ٹو سر کرنے جیسی خوشی دیتا ہے اس ہسپتال کی ایک بات نرالی ہے کہ یہ سیکریٹری صحت کے قریب تر ہے موصوف اگر اپنے دفتر سے پیدل یہاں تک آئیںتو مشکل سے پانچ منٹ لگتے ہونگے لیکن وہ نہیں آتے افسر ہیں نا ں اس لیے جبکہ محسن نقوی ہر روز کسی نہ کسی ہسپتال میں پہنچ جاتا ہے ایسے کام وہی لوگ کرتے ہیں جنہیں عوام کا دکھ ہو ،غریبوں کا احساس ہو اور اپنے اداروں کی بہتری کا خیال ہوسیکریٹری صاحب دور دراز کے ہسپتالوں میں نہیں جاسکتے تو کم از کم گنگا رام ہسپتال میں تو جاسکتے ہیں لیکن ہمارے سرکاری بابو اپنی اس ملازمت کو بھر پور انجوائے کرتے ہیں کبھی وہ بھی عام شہری بن کر اسی ہسپتال کی لیبارٹری سے اپنا ٹیسٹ کروائیں ،کبھی غریب مریض کا روپ دھار کر کسی ڈاکٹر سے اپنا علاج کروانے چلے جائیں اور کبھی پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ ہاتھ میں کوئی نسخہ تھامے ایم ایس کے کمرے میں گھسنے کی کوشش تو کریں وہاں کے سیکیورٹی گارڈ نانی نہ یاد کروادیں تو کہنا لیکن یہ سب آپ کیوں کرینگے یہ تو وہاں ہوتا ہے جہاں سرکاری ملازم اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھتا ہو وہ اپنے عہدے کو انجوائے نہیں کرتا بلکہ اس موقعہ کو اللہ کی غنیمت جانتے ہوئے غریب عوام کی خدمت کرنے میں صرف کرتا ہے یہ ہسپتال ایک مثال ہے باقی ہسپتالوں کےلیے کہ جہاں محکمہ صحت کا سربراہ سر پر بیٹھا ہوا ہے اور مریض خوار ہورہے ہیں وہ تو اللہ بھلا کرے اشفاق احمد بھٹی کاجو گنگا رام میں غریبوں کے لیے محسن نقوی کی طرح کام کررہا ہے اگر یہ بھی نہ ہوتا تو آئے روز ہسپتال میں مریض اور ملازم دست وگریبان ہوتے کاش ہر ہسپتال میں بھٹی صاحب کی طرح کا کوئی نہ کوئی خدا ترس اور مہربان انسان دوست ملازم مل جائے جو ایم ایس سمیت پورے ہسپتال کا وزن اٹھا لے اب لاہور سے دور دراز علاقے ہیڈ راجکان کے ہسپتال کا حال بھی پڑھ لیں پھر اندازہ ہو گا کہ پنجاب کے ہسپتال کیسے چل رہے ہیں اور ہماری بیوروکریسی کس کام میںمصروف ہے ہیڈ راجکان بہاولپور کی تحصیل منڈی یزمان کی سب تحصیل ہے نگران وزیر اعلی محسن نقوی نے اپنے دورہ چین کے دوران چینی حکومت کے ساتھ ملکر اس شہرکو چین کے شہر کے ساتھ جڑوانوں شہر قرار دیا ہے اور اسی شہر کے ہیڈ راجکان کے ہسپتال میں ڈاکٹر ہے نہ دوائی اور نہ ہی لیبارٹری ہے اور تو اور گائنی کا شعبہ بنا ہوا ہے لیکن عرصہ دراز سے کوئی ڈاکٹر ہی نہیں ہے سنا ہے کہ یہاں کا ایک ایم پی ہے بھی ڈاکٹر ہے جسکا اسی شہر میں سکولوں اور ہسپتالوں کا بزنس ہے اسی کی وجہ سے آج تک اس علاقے کو تحصیل کا دجہ نہ مل سکا،سرکاری ہسپتال نہ چل سکا اور اتنی بڑی آبادی کے لیے کوئی کالج نہ بن سکا کیونکہ اس طرح کے کاموں سے اسکا کاروبار متاثر ہوتا ہے پڑھنے والے بچوں کے لیے ہیڈ راجکان سے بہاولپور یونیورسٹی تک کا سفر انتہائی خواری کا سفر ہوتا تھا خاص کر ہماری بیٹیوں کے لیے وہ تو اللہ بھلا کرے سابق وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی ڈاکٹر اطہر محبوب کا جنہوں نے میری درخواست پر ہیڈ راجکان سے طالبعلموں کے لیے بس سروس شروع کردی تھی یہی حال ہمارے پورے صوبے کا اور پھر پورے ملک کا ہے جہاں غریب لوگوں کے نام پر بننے والے فلاحی منصوبوں پر افسران اور عوامی نمائندے موج مستی کرنے میں مصروف ہیں اکیلا محسن نقوی اتنے بڑے گند کو صاف نہیں کرسکتا اس کےلئے باقی افراد کو بھی آگے آنا ہوگا۔