کالم

گورنرمقبوضہ کشمیر کا بے بنیاد دعویٰ

riaz chu

مقبوضہ کشمیر کے نام نہاد گورنر نے بے بنیاد دعویٰ کیا ہے کہ مقبوضہ وادی بھارت کا حصہ ہے ۔ یہ شر وع سے ہی بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے گورنر کا بیان خطے کے امن اور استحکام کیلئے مستقل خطرہ ہے۔اس سے نہ تو تاریخ کی حقیقت کو تبدیل اور نہ ہی جموں و کشمیر کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہونے کی حیثیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے نہ کبھی تھا۔ بھارت غیرقانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر پر قابض ہے جو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ جھوٹے اور گمراہ کن دعوے کا سہارا لینے کی بجائے بھارت کو متنازعہ علاقے سے اپنا قبضہ ختم کرکے کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق خودارادیت کا ناقابل تنسیخ حق استعمال کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہئے۔ دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی طرف مبذول کرواتے رہیں گے، پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی حمایت جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہے۔ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بڑی واضح ہے لیکن اسے مزید مستحکم کرنے کی اشد ضرورت ہے ہماری حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے ہرانٹرنیشنل فورم پر نہایت مضبوطی سے اپنا موقف پیش کریں اور انسانی حقوق کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی اور بھارتی جارحیت کے خلاف ایسا عالمی دباو¿ تخلیق کریں جس سے بھارت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔ ہمیں چاہئے کہ بہترین اور موثر پالیسی بنانے کے ساتھ ساتھ بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے قیامت خیز تشدد کی طرف عالمی توجہ مبذول کروانے کے لئے بھی مناسب حکمت عملی وضع کریں اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کو بھی یکجہتی کا ایسا پیغام دیتے رہنا چاہئے جس سے ان کے پائے استقامت کو مزید تقویت ملے اور حوصلہ افزائی کے اس تاثر سے ان کی تحریک آزادی میں جب ضرورت ہو نئی روح پھونکی جا سکے۔ بیرون ملک رہنے والے کشمیری مسلمانوں کی طرف سے بھی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنا قابل ستائش ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ تنازعہ کشمیر پر اقوام عالم کی توجہ اس وقت تک مبذول کرواتے رہنا چاہئے جب تک کشمیریوں کو آزادی مل نہیں جاتی جو ان کا بنیادی حق ہے۔ زیر قبضہ کشمیرمیں محاصرے‘ تلاشی کارروائیاں جاری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ملازمین کی بھرتی کے لیے بلیک لسٹ بھارتی کمپنی کو ٹھیکہ دینے کے خلاف جموں اور سری نگر میں زبردست احتجاج کیا ہے جموں میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا پولیس نے درجنوں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ دوسری جانب جموں و کشمیر سالویشن موومنٹ کے چیئرمین ظفر اکبر بٹ، جنوبی کشمیر کے سرکردہ مذہبی رہنما قاری یاسر، سید خالد گیلانی سمیت کئی کشمیری رہنماو¿ں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ بھارتی ایجنسی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے اہلکاروںنے نیم فوجی دستوں اور پولیس اہلکاروں کے کے ہمراہ کم از کم 9 مقامات پر چھاپے مارے۔کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہاہے کہ کشمیریوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گااوروہ بہت جلد بھارت کے ناجائز تسلط سے آزادی حاصل کریں گے ۔ تنازعہ کشمیر حل ہونے تک جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اقوام متحدہ جب تک کشمیرکے بارے میں اپنی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کراتا ، بھارت کی ظالم فوج کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلتی رہے گی ۔ بھارتی حکومت کو اپنی جارحیت ترک کر کے یہ سوچنا چاہئے کہ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار اور خود ساختہ علمبردار اور انسانی حقوق کی اہمیت پر مصنوعی راگ الاپنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کشمیری عوام کو ان کے حق خود ارادیت، آزادی رائے اور بنیادی حقوق کی فراہمی سے محروم کرنا اور بالجبر اپنا تسلط قائم کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ جواہرلال نہرو نے ایک مرتبہ ایک تقریر میں کہا تھا۔ ”لوگوں کے دل اور دماغ جیتنے سے بڑھ کر اور کیا اہم ہو سکتا ہے۔“ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق کئی سالوں سے جموں و کشمیر میں نافذ آرمڈ فورسز اسپیشل ایکٹ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مختلف مقدمات میں انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس لئے اس کالے قانون کا فوری طور پر خاتمہ ضروری ہے ۔ اس ایکٹ کی دفعہ 7کے تحت بھارت کی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر استثنیٰ حاصل ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث بھارتی اہلکاروں کا احتساب ممکن نہیں۔بیگناہ کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا ناروا سلوک اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہا۔ جمہوری حقوق کی پیپلز یونین کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی میں موجود کشمیری مسلمان ظلم و جبر اور عدم تحفظ کا شکار ہیں اور وہاں کی مقامی پولیس اوچھے ہتھکنڈوں سے انہیں ہراساں کرتی ہے۔ بھارتی پولیس نے افضل گرو کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا اور بھارت کے شدت پسند حلقوں کی خوشنودی حاصل کرنے کےلئے اسے پھانسی دے دی جو سراسر عدالتی قوانین اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے