کالم

ہر طرف مایوسی کا عالم

موجودہ حالات میں ملک عجیب و غریب صورت حال سے دو چار ہے۔ عوام بھوکے، سہمے اور فکرمند ہیں۔ لوگوں میں بے چینی ہے اور ہر طرف مایوسی کا عالم ہے اور غم و غصہ کا ماحول ہے۔ لوگ حکومت کے فیصلوں سے ناراض ہیںاور اپوزیشن کے رویہ سے خفا ہیں بلکہ اپوزیشن برائے نام ہے۔عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہے اور مزدور و کسان مسائل سے عاجز آکر اپنی جان دے رہے ہیں۔ غربت کا سلسلہ چل رہا تھا اور چل رہا ہے اوریہ سلسلہ نہ رک رہا ہے اور نہ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پھر بھی دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے، ترقی کر رہا ہے حالانکہ ترقی صرف جاگیر دار اور سرمایہ دار کر رہے ہیں ۔ گزشتہ پچھتربرسوںسے اس ملک ملک میں کئی ایک سیاسی گروہ برسراقتدار چکے ہیں۔اور ہر گروپ یہی نعرہ لیکر میدان میں آیا کے پاکستان کے اصل مسائل کا حل تو میرے پاس ہے اور میں جانتا ہوں کے مسائل کیا ہیں اور ان کو کسے حل کرنا ہے ۔اور ہر بار عوام کا اعتماد لیکر بدلے میں انکے ارمانون کا حون کر کے لوٹا دیتے ہیں اورمسائل جوں کے توں ہیں۔کسی بھی سوسائٹی کو مسائل کا پیش آناور جنگوں اور وبا کا مقابلہ کرنا کوئی نئی بات نہیں دینا میں قوم کو مسائل کا سامنا رہا،لیکن وہی قوم اپنے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جو اپنے سامنے ایک مربوط واضح اور دو ٹوک نطریہ رکھتی ہو۔دیکھا جائے تو ملک میں لیڈر شپ کا فقدان ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہر فردفکری انتشار میں مبتلا ہے۔ایک طرف مسائل کا انبار ہے،اور دوسری ان مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے کوئی راستہ نظر نہیں آ تا۔سب سے بڑھ کر یہ کے مسائل کی فہرست ہر مکتبہ فکر کی اپنے ذہن کے مطابق ہے ۔ جمہوریت میںحزب اختلاف کا اہم کردار ہوتا ہے اور اپوزیشن لیڈر کو قائد
ایوان جتنے مراعات ملتے ہیں ۔ اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اپوزیشن کا کردار حکومت کو تجاویز دینے ہوتے ہیں کہ موجودہ مسائل سے کیسے نکلا جائے نہ کہ اپوزیشن حکومت کیلئے مسائل پیدا کرے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جو پارٹیاں حزب اختلاف میں ہوتی ہیںان کا کہنا ہوتا ہے کہ چونکہ ہمارے پارٹی کی حکومت نہیں اسلئے یہ مسائل ہیں اور جو پارٹی بر سر اقتدار ااتی ہے وہ پچھلی حکومت کے دور کے مسائل کا رونا رو کر اپنے 5 سا ل پورے کر لیتی ہے۔مذہبی جماعتوں کی طرف تو جو سیاسی مذہبی جماعتیں انکا نقطہ نظر یہ کہ جب اسلامی نظام نافذ نہیں مسائل حل نہیں ہو سکتے اور جب ان سے سوال کیا جاتا ہےکہ اسلام نظام کیسے نافذ ہو گا تو ہر ایک جماعت کا اپنا ہی فلسفہ ہے۔ان مذہبی جماعتوں کا مقصد صرف دین کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کےلئے استعمال کرتی ہیں اور ایک دوسرے پہ فتوے اور ان جماعتوں سے مفادات کیلئے مفادات کیلئے مزید پارٹیاں جنم لیتی ہیںاور یوں جنم و تولید کا یہ عمل جاری و ساری ہے۔اور ان جماعتوں میں سے جو کچھ مخصوص علاقوں سے ووٹ حاصل کر لیتی ہیں تووہ پارلیمنٹ کا حصہ بن کراس ہی ظالمانہ نظام کا تحفظ کرتی ہیں۔اصلاحی مذہبی جماعتیں تو ان مسائل کو تقدیر کے جوڑ کے اس ظالمانہ نظام کے ساتھ صلح کرنے کا کام کر رہی ہیں اور اب تو ان کا کام حکمرانوں کے حق میں دعا کرنا رہ گیا ہے۔ کچھ دانشور حضرات نیوز چینلز پر بیٹھ کر اپنے ذہنی احتراح کے مطابق مسائل کی ایک لمبی فہرست بتائیں گے اور اپنے منتشر خیالات و افکار کے مطابق اس کا حل پیش کرتے ہیں۔اب اسی صورت حال میں پورا سماج کنفیوڑن کا شکار ہے نہ کسی بات مانیں اور کس کی اتباع کریں۔اگر معاشرے کے اجزائے ترکیبی کا علم ہو تو معاملے کی تہہ تک پہنچا جاسکتا ہے۔عمرانیات کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ معاشرہ بنیادی طور پر تین عناصر سے مل کر بنتا ہے۔فکر و نظریہ، سیاسی نظام اورمعاشی نظاماب ان تینوں عناصر کو سامنے رکھ کر ہم اپنی سوسائٹی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ کیوں کہ جس نعرے پر ملک حاصل کیا کہ ہماری فکر اسلام کی ہو گی ، معاشی نظام اسلام کے مطابق ہوگا اورسیاسی نظام اسلام کا ہو گا لیکن موجودہ جو ڈھانچہ ہمارے سامنے ہے اور اس کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ افسوسناک ہیں اور المناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام لارڈ میکالے کا بنایا ہوا جو صرف نظام کے کلرک پیدا کرتاہے۔جو نو آبادیاتی دور کا تقاضوں کو پورا کرنے کےلئے سامراج سے مرعوبیت کے حوالے سے ذہن پیدا کرتا ہے۔جو ہمارے نوجوان نسل میں جرا¿ت اور سامراج کے اعلی شعور کے بجائے بزدلی اور پست ہوتی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔سیاسی نظام میکاﺅلی کے فکر و فلسفے پر قائم ہے جس کا اخری نتیجہ جھوٹ ہی نکلتا ہے اور دھوکہ دہی، اقربا پروری اور بین الاقوامی سامراج کی آلہ کارانہ کردار اس کا محور ہے اور اسی کو کامیابی کا زینہ تصور کیا جاتا ہے اورجس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں اس وقت ہمارا پورا سماج بدامنی اور سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ جمہوریت کے نام پر سرمایہ دارانہ نظام کی نوں کلاسکل شکل نافذ ہے۔پارلیمنٹ جاگیر داروں آور سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ ہے ۔ معاشی نظام ایڈم اسمتھ کی فلاسفی پر مبنی ہے۔جو سرمایہ دارانہ نظام کا بانی ہے۔سرمایہ داری نظام معیشت معاشرے میں ایک حاص طبقے کی اجارہ داری قائم کر کے 98 فیصد طبقے کو محروم معیشت بناتا ہے اور یہ نظام سماج میں غربت و افلاس اور بیروزگاری پیدا کرتا ہے سوسائٹی کو آگے بڑھانے کے بجائے عالمی سامراج کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیتا ہے ۔ اصل مسائل سے فرار ہمارا مجموعی مزاج یہ بن چکا ہے۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سب اچھا کی رٹ ہے اور عوامی مسائل کا حل کسی کے پاس نہیںحالانکہ جو نظام مسلط ہے اس کو جمہوریت کا عوان دیا گیا ہے۔ لوگوں کے اندر پیدا ہونے والی یہ بے چینی کی کیفیت، مایوسی کا یہ عالم اور دلوں میں پلنے والا یہ غم و غصہ کس انجام کو پہنچے گا، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اگر وقت رہتے اس جانب توجہ نہیں دی گئی اور اس مسئلہ کے سد باب کےلئے سرکار کی سطح پر کوشش نہیں کی گئی توخدشہ ہے کہ یہ حالات ملک کی تصویر نہ بدل دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے