کہتے ہیں ایک اچھی بات یا نصیحت آپ کے پاس امانت ہوتی ہے اور اس امانت کو دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔ اچھی بات کا ثواب اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ ہماری شروع سے خواہش رہی ہے کہ اپنے ملک کو امن اور خوشحالی کا گہوارا بنائیں اگر ہم اپنے اسلامی ادوار پر نظر ڈالیں تو حضرت محمدﷺ کے دور سے لے کر خلفائے راشدین تک سنہری دور گزرا۔حتیٰ کہ اس دور میں تو کمیونیکیشن کے اتنے ذرائع نہیں تھے جتنے ذرائع ہمیں آج میسر ہیں۔ اس وقت چوری چکاری نہیں تھی۔ ایمانداری اور امن و امان کا د ور دورہ تھا۔ اب جدید دور آ چکا ہے، فاصلے سمٹ چکے ہیں اور لوگوں میں باہمی رابطہ یا کمیونیکیشن سسٹم بہت آگے نکل گیا ہے۔جس سے یقینا امن و امان قائم رکھنا اور ملک میں خوشحالی اور ترقی لانا مشکل نہیں رہا۔لیکن بدقسمتی سے ہم آج بھی بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے پاس وسائل بھی ہیں، سب کچھ ہے اور اگر اتنے جدید دور کے باوجود اگرہمارے پاس ایمانداری نہ ہوجوکہ خوشحالی کا باعث بنتی ہے، بہت دکھ کی بات ہے۔ میں یہاں یہ ذکر کرنا چاہوں گا کہ اس وقت دنیا بھر میں ایمانداری کے جو ریکارڈ جاپان بنا رہا ہے۔ جاپان میں بھی ایمانداری میں ٹوکیو سرفہرست ہے اور اس کا دنیا کے ایماندار شہریوں میں پہلا نمبر آ رہا ہے۔ 3کروڑ 80لاکھ آبادی کے اعتبار سے بڑے شہر میں گم شدہ اشیاءمل جاتی ہے وہاں پر اشیاءاور رقم لے کر گھومنا کوئی سکیورٹی رسک نہیں ہے جبکہ گم ہونےوالی رقم بھی نشاندہی بتانے پر باآسانی مل جاتی ہے اور یہ یہاں پرمعمول کا عمل ہے۔ ٹوکیو میں شہریوں نے مختلف جگہوں سے ملنے والی تقریباً ساڑھے 3کروڑ 20 لاکھ ین جو پاکستانی روپوں میں 3ارب 25 کروڑ بنتے ہیں۔ وہ پولیس کو واپس پہنچائے۔ سوا 3ارب کی نقد رقم کا کوئی ولی وارث نہیں تھامگر لوگوں نے یہ رقم اٹھائی اور پولیس کو جا کر جمع کروا دی۔ ٹوکیو میں یہ عام سی بات ہے کہ لوگ ریسٹورنٹس اور کیفے میں اپنی جگہ بک کروانے کےلئے بلاخوف اپنا قیمتی موبائل فون چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر کسٹمراپنی کوئی چیز بھول بھی جائے تو وہ اسے بآسانی مل جاتی ہے۔ اس میں انہیں کسی بھی قسم کی قباحت نہیں ہوتی۔ جاپانی معیشت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں معیشت کا19فیصد کیش ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں۔بینکنگ ٹرانزیکشن یا کریڈیٹ کارڈ پر ٹرانزیکشن نہیں ہوتی۔ جاپان میں معمول کا عمل ہے کہ لوگ نقد رقم کے ذریعے ٹرانزیکشن کرتے ہیں اور پچھلے چار سال سے جاپان میں 103 بلین ”ین“ کا لین دین کیشن پر ہوا۔ اس حوالے سے لوگوں کو اعتبار ہے کہ کوئی پیسے کھاتا ہے نہ ہی چیز کو دباتے ہیں۔ وہاں دیکھا گیا ہے کہ مہنگائی ہونے کے بجائے چیزیں سستی ہو رہی ہیں۔ عوام بھی بینکوں کے بجائے اپنے پاس نقد رقم رکھیں۔جاپان کے بینکوں نے شرح سود صفر کر دی ہے۔ اب بینک رکھیں گے تو وہ آپ سے پیسے لے لے گا آپ کو کچھ نہیں دے گا۔ یہ خفیہ جاپان کی تہذیب و ثقافت کا حصہ ہیں۔ کیونکہ جاپان کے سکولوں میں اخلاقیات کا سبق بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ اگر کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے تو اسے بچوں کو بچپن سے ہی سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اگر کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے تو اس پر کیا گزرتی ہے، تو بچوں کو شروع سے پڑھایا جاتا ہے۔ بڑا دلچسپ قانون ہے جاپان میں کہ اگر کوئی شخص گم شدہ رقم مالک کے حوالے کرتا ہے تو اصل رکھ سے 5سے 20فیصد رقم اسی شخص کو بطور انعام دی جاتی ہے ۔ اگر تین مہینے تک اس رقم کا کوئی دعویدار نہ آئے تو پوری کی پوری رقم پولیس اور متعلقہ اداروں تک پہنچانے والے افسر کو مل جاتی ہے۔ ایماندار قوم کا ایماندار وطیرہ اور ایمانداری کی شان ہے جو جاپان میں نظر آتی ہے ۔ ایمانداری کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص کو زندگی ایمانداری سے گزارنی چاہیے ۔ ایمانداری کا ایک وسیع مفہوم اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی ذات اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کس حد تک ایماندار ہیں؟ بظاہر ہر شخص اپنی جگہ بے حد ایماندار ہے۔اگر ایسا ہے تو پھر سمجھ نہیں آتی معاشرے میں خرابی کہاں پر ہے؟ اگر معاشرہ برادری کو کہتے ہیں اور برادری بُری ہے، مذہبی اقدار سے اور اعلیٰ اصولوں سے روگردان ہے، اپنے اعمال و کردار میں ملاوٹ کر رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب نے بھی اس ملک گیر بلکہ عالمگیر برائیوں میں فرداً فرداً اپنا حصہ ڈالا ہوا ہے اسے تسلیم نہ کرنا الگ بات ہے لیکن فرداً فرداً ہم سب نے یہ یقیناً سوچنا ہے کہ ہم کب سنبھلیں گے؟ یا کیسے سنبھل سکتے ہیں؟۔ ایمانداری کا سلسلہ سب سے پہلے انسان کی اپنی ذات سے، اپنے اندر سے یعنی ذاتی خیالات کے راستے شروع ہوتا ہے۔ جس کا اثر بہت بعد میں معاشرے تک پہنچنا شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا جب تک ہم اپنے آپ میں ایماندارانہ تصورات لے کر نہیں آتے، معاشرہ مجموعی طور پر کسی بھی قسم کی ایمانداری کے مفہوم سے عملی طور پر ناآشنا رہے گا۔ ہر سطح پر ایمانداری کا بیج ہم نے اپنے شعور میں خود ہی اپنے ہاتھوں سے بونا ہے۔ تب جا کر ہمیں اس کا پھل ایک عمدہ‘ راست‘ ایماندار اور خوشگوار معاشرے کی صورت میں ملے گا۔ تمام تر برائی اور خرابی ہمارے اپنے دل اور ذہن کے اندر ہوتی ہے جس کا الزام ہم دوسروں کے سر لگا کر جھوٹی تسکین و تسلی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایماندار بننے کا پہلا تجربہ اپنی ذات سے شروع کریں۔نیوزی لینڈ کا ایماندار ملکوں میں پہلا نمبر ہے، فن لینڈ کی تیسری، سنگاپور کی چوتھی پوزیشن ہے جبکہ دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں پاکستان کی 124ویں پوزیشن ہے۔ اب ہمیں سوچنا ہوگا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہونے کے باوجود کرپٹ ترین ملک بن گیا ہے جبکہ غیر مسلم ممالک ایماندار ملکوں میں سرفہرست ہیں۔ غیر مسلموں نے اسلامی تعلیمات اور ایمانداری کو اپنا لیا ہے اور ہم اپنے ہی دین کی تعلیمات سے دور ہیں۔یہ ہمارے لئے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ہم ریاست مدینہ کی تو بات کرتے ہیں لیکن اس پر عمل پیرا نہیں ہیں۔باتوں کی بجائے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے نہیں تو ہم صدیوں پیچھے رہ جائیں گے ۔