مسلمانوں کی غالب اکثریت اور جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظر 1947میں کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق فطری بات تھی لیکن کشمیر کی مسلم اکثریت کی رائے کو مسترد کرتے ہوئے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک خفیہ گٹھ جوڑ کے ذریعے بھارت کے ساتھ الحاق کا ڈرامہ رچایا دو قومی نظریئے کی بنیاد پر متحدہ ہندوستان کی تمام ریاستوں اور دیگر علاقوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ بھارت یا پھر پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں ۔
کشمیر میں مسلمانوں کی غالب اکثریت اور جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظر پاکستان کے ساتھ الحاق ایک قدرتی امر تھا لیکن ایسے نہیں ہونے دیا گیا۔ تقسیمِ برصغیر کے اصولوں کے تحت طے پایا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور ہندو اکثریتی آبادی والے علاقوں کو بھارت میں شامل کیا جائے گا اس اصول کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تھا اس نام نہاد الحاق کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسترد کرتے ہوئے کشمیر میں رائے شماری کے حق میں قراردادیں پاس کی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کو اپنی قراردادوں میں کشمیری عوام سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں رائے شماری کا موقع دیا جائے گا بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار کے5اگست 2019 کے اقدام کی توثیق کرکے عالمی قوانین اور انصاف کے تقاضوں کو پامال کیا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، بھارت سے الحاق کے بعد کشمیر کی داخلی خود مختاری کا عنصر برقرار نہیں رہا اور دفعہ 370ایک عارضی شق تھی۔عدالت نے مقبوضہ جموں وکشمیرکی اسمبلی کے انتخابات 30ستمبر 2024تک کرانے کا حکم دیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ بھارتی صدر کے پاس اختیارات ہیں، دفعہ 370 جموں و کشمیر کے انضمام کو منجمد نہیں کرتا، جموں و کشمیر اسمبلی کی تشکیل کا مقصد مستقل باڈی بنانا نہیں تھا درخواست گزاروں نے بھارتی سپریم کورٹ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور دفعہ 370بحال کرنے کی استدعا کی تھی۔بھارتی سپریم کورٹ نے 20سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔درخواستوں میں جموں و کشمیر کو جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ 5ستمبر کو محفوظ کیا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ میں دفعہ 370کی منسوخی کے خلاف درخواستوں پر 16دن تک سماعت ہوئی تھی بھارت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی تھی۔فیصلہ سنانے کے موقع پر مقبوضہ جموں وکشمیر میں پابندیاں مزید سخت کی گئی ہیں جبکہ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کوان کے گھروں میں نظربند کردیا گیا پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق درخواستوں پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر یبن الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ایک متنازع علاقہ ہے لہذا بھارت کو مقبوضہ کشمیر کے متنازع علاقے کے تعین کا کوئی حق نہیں ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کی قراردادوں کی رو سے مقبوضہ جموں وکشمیر آج بھی ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کے الحاق کا فیصلہ مقامی آبادی کے استصواب رائے اور حق خود اردیت سے منسلک ہے-مقبوضہ جموں و کشمیر کی اس حیثیت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی چنانچہ بھارتی حکومت کی جانب سے اس مقبوضہ ومتنازع علاقے کی علاقائی حیثیت تبدیل کرنے کے عمل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں لہذابھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے اس سلسلے میں بی جے پی کی ہندوتوا حکومت کے اقدامات کو برقرارر کھ کر مودی سرکار کے بے بنیاد اور صریحا ناجائز اقدام کو جو قانونی جواز فراہم کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے اس کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کا مودی سرکار کے پانچ اگست 2019 کے اقدام کی توثیق کا فیصلہ قانونی سے زیادہ سیاسی ہے مسلم آبادی کے معاملے میں بھارت کی اعلی عدلیہ کا متعصبانہ رویہ دنیا سے ڈھکا چھپا نہیں بھارت میں جب بھی مسلمانوں کے حقوق کی بات آتی ہے تو انصاف کا تقاض نہیں حکمرانوں کے سیاسی عزائم کی نگہبانی بھارتی اعلیٰ عدلیہ کی اولین ترجیح بن جاتی ہے- تنازعہ کشمیر گزشتہ سات دہائیوں سے چلا آرہا ہے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی وضاحت کرنے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل کی منسوخی کو قانونی جواز فراہم کرنے والی بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے عالمی دائرہ کار میں در اندازی کی ہے۔بھارت کئی دہائیوں سے سلامتی کونسل کے فیصلوں کی اہمیت کو کم کرنے کی جو کوششیں کر رہا ہے بھارتی اعلی عدلیہ کا مذکورہ بالا فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے- مقبوضہ کشمیر میں شخصی آزادی ہے اور نا ہی قانون کی عمل داری’5 اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارتی افواج نے ریاست میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالیاں شروع کر رکھی ہیں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں بڑی تعداد میں نہتے مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔یہ طے شدہ امر ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں مصروف کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کے لئے بھارت اپنی فوجوں اور دیگر سیکورٹی فورسز اور اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے چاہے جو بھی حربہ اختیار کرلے’ان کی آواز اور بھی ابھرے گی اور ان کی جدوجہد اور بھی تیز ہوگی اور بالآخر بھارت کو جبر وتشدد کے بجائے مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کی جانب ہی آنا پڑے گا کشمیری عوام کی بے مثال جدوجہد کے نتیجے میں انہیں اپنی آزادی کی منزل قریب نظر آرہی ہے وہ بھارتی ریاستی دہشت اور مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی افواج کے بد ترین مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بھارتی اعلیٰ عدلیہ کے متعصبانہ فیصلے سے کیسے خوفزدہ ہوسکتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کا واحد، دیرپا اور مستقل حل مقبوضہ ریاست میں انتخابات سے نہیں صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے سے ہی ممکن ہے۔ استصواب رائے کے تحت کشمیر کے عوام اگر پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرتے ہیں تو بھارت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوناچاہئے۔خطے کی موجودہ صورت حال’ عالمی امن کے لئے عالمی برادری بھارتی حکومت پر دباﺅ ڈالے کہ وہ کشمیری مسلمانوں پر ظلم وستم کا سلسلہ بند کرکے اپنی فوج کو کشمیر سے واپس بلائے اور تنازعہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل کرنے کےلئے اقدامات کرے۔جب تک تنازعہ کشمیر حل نہیں ہوتا جنوبی ایشیا میں امن کا قیام ناممکن ہے۔ حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کےلئے تمام عالمی فورموں پر آواز بلند کرے کیونکہ عالمی ادارے کی منظور کردہ قرار دادیں آج بھی موثر ہیں ۔ ضرورت صرف ان پر عملدرآمد کےلئے بھرپور آواز اٹھانے کی ہے۔
کالم
ہندوکورٹ میں انصاف کاقتل عام
- by web desk
- دسمبر 22, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 178 Views
- 12 مہینے ago