کہتے ہیں جب بیماریاں آتی ہیں تو اکیلی نہیں ڈھیروں کے حساب سے آتی ہیں، مصیبتیں بھی اسی طرح جب کسی کی زندگی میں داخل ہوتی ہیں تو وہ بھی بدقسمتی سے گروہ در گروہ ہی آتی ہیں کہ ایک مصیبت ختم ہوتی ہے دو اور گلے پڑ جاتی ہیں جیسے آجکل پی ٹی آئی کا حال ہوا چاہتا ہے، 9 مئی کی آندھی کچھ ایسے چلی کہ سب کچھ اجڑ کر رہ گیا۔ آسمان جیسے زمین پر آن گرا ہو۔ صاف شفاف موسم میں اچانک جیسے ایک بھیانک کلاو¿ڈ برسٹ ہوا کہ اجلا صاف شفاف دن پل بھر میں کالی سیاہ رات میں تبدیل ہو کر ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا پھیل گیا۔ جو نہ ہونا تھا وہ ہو گیا اور جو ہونا چاہئے تھا وہ آج بھی ہونا باقی ہے۔09مئی کی اصل حقیقت کیا ہے، یہ وقت ایک دن سب کچھ کھول کر سامنے رکھ دے گا۔ بحرحال جو بھی ہوا، وہ بہت برا ہوا جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ قارئین کرام اس بے مثال لیکن تباہ کن واقعہ کے مناظر تاحال جاری ہیں۔ تباہی کی مثال سامنے ہے کہ پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی شخصیت اپنی پارٹی سمیت تقریبا ًزمین بوس ہو چکی ہے۔ وہ شخص جو سعودی عرب کے دورے پر گیا تو سعودی ولی عہد سے پاکستانی قیدیوں کی سعودی جیلوں سے رہائی کی بھیک مانگتا رہا، آہ وقت کیا پلٹا کہ وہ آج اپنے ہی ملک میں پابند سلاسل دو سو کے قریب بلاجواز مقدمات کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ وقت کیا بدلا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اسکے اپنے ہاتھوں میں پلے بڑھے لال پیلے، نیلے،ہرے سب ہی رنگوں کے طوطے طوطیاں پھر سے اڑ گئیں۔ جو کل تک اس کے گیت گاتے وہ آج اب دوسروں کی ٹیں ٹیں کرتے پھر رہے ہیں۔ خان کی پارٹی بری طرح لڑکھڑا رہی ہے لیکن حیرت ہے کہ نازوں نخروں کا پلا بڑھا عمران خان اب بھی ایک مضبوط چٹان کی طرح ظلم کی ہر دیوار کے سامنے سینہ سپر کھڑا نظر آتا ہے۔ اسکے حوصلوں سے پتہ چلتا ہے کہ مارنےوالے سے بچانے والا بہت ہی بڑا ہے۔ لیکن اس کمال کی بربادی میں اس باکمال اور ذہین دستِ ہنر مند کو میں داد دیئے بنا رہ نہیں سکتا کہ اس نے کیسے ایک ایکٹ کے اس کھیل کو اتنا جارہانہ انداز میں پیش کیا کہ پل بھر میں مخالف کا سب کچھ جلا کر راکھ کر ڈالا۔بحرحال دیکھتے ہیں کہ اس فخریہ پیشکش کا انجام کیا ہوتا ہے، پیش کار اور ہداہت کار تو اپنی کامیابی پر پھولے نہیں سما رہے لیکن ادھر ان کا جذبہ بھی اپنے پورے عروج پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔جو کسی بھی صورت میں ہار نہ ماننے کی ٹھانی بیٹھا ہے۔ اس موقع پر کسی نے کیا خوب کہا ہے:
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
پی ٹی آئی سے فرارچوری خور طوطوں کی فہرست بھی بڑی طویل ہوتی جا رہی ہے۔ آئے روز انکے پنجرے کی کوئی کنڈی کھولتا ہے، رٹی رٹائی ٹیں ٹیں کرواتا اورمیاں مٹھو چوری کھائے گاکی من بھائی بولی کی گردان پر انہیں آذاد کر دیا جاتا ہے۔ چوری بھی مل رہی ہے اور آزادی بھی لیکن شایدچوری خور یہ نہیں جانتے کہ انہیں آزادی نہیں بلکہ عمر بھر کی رسوائی مل رہی ہے۔ایک طوطے کو تو آجکل پی ٹی آئی کے مستقبل کی بڑی فکر لگی ہوئی ہے۔ یہ وہی طوطا ہے جو موقع ملتے ہی پہلے کا فرار ہو گیا تھا اور اب پھر شاید اسے تازہ تازہ چوری ملی ہے جو اب ایک نئے شوشے کے ساتھ ٹیں ٹیں کر رہا ہے کہ خان نے اس جیسے پرانے پاپی کو چھوڑ کر بیرسٹر گوہر خان کی نامزدگی کیسے کر دی۔ کوئی اس سے پوچھے میاں مٹھو جب تو اپنی پارٹی کا دوسروں کے ساتھ مل کر شیرازہ بکھیر رہا تھا تو اسوقت اسکے پیٹ میں پارٹی کی محبت کیوں نہ جاگی؟ بھائی تم تو وہی ہو ناں جس نے پارٹی میں سب سے پہلے پھوٹ ڈالنے کی بنیاد رکھی، دشمنوں کی پٹی پڑھتے پڑھتے دشمنی کی حد تک اپنی اسی پارٹی کو تم نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر ہی دم لیا جسکی وفاداری کے تم آج دم بھر رہے ہو۔ اس طوطے کے پیٹ میں اس وقت مروڑ کیوں نہ اٹھے جب خان کو عدالت کے احاطے میں گھسیٹا گیا، ہتھکڑیاں ڈالی گئیں، پارٹی کے ہزاروں ورکروں کو گرفتار کیا گیا، چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا، عورتوں بچوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا تو اسوقت اس طوطے کے پیٹ میں مروڑ کیوں نہ اٹھے ؟ حد تو یہ ہے کہ یہ طوطا اپنی ہی پارٹی کو جس کے غم میں یہ آج گھلا جا رہا ہے پوری طرح تباہ و برباد کروانے کے بعد اب بھی بڑی ڈھٹائی سے اپنے آپکو اس پارٹی کا وارث کہتا ہے۔ اگر جناب وارث ایسے ہوتے ہیں تو ان جیسی پرانی محبتوں اور ان جیسے موقع پرست وارثوں سے ہمیں بد بو اور ایک عجیب سی گھن آتی ہے اور میں اپنے آج کے کالم کو مرزا غالب کی ایک غزل کے اس شعر سے کرتا ہوں جو مرزا صاحب نے ان جیسے اسوقت کے اپنے موقع پرست دوست نما دشمنوں کو ذہن میں رکھ کر ہی شاید لکھی تھی۔یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے،ہوئے تم دوست جسکے دشمن اسکا آسمان کیوں ہو۔
کالم
ہوئے تم دوست جس کے؟
- by web desk
- دسمبر 8, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 481 Views
- 1 سال ago