کالم

ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام

علمی و ادبی اداروں کے سربراہان کے تقرر کے حوالے سے سامنے آنے والی مختلف و متنازعہ تفصیلات نے مجھے متعدد وجوہ کی بنا پر کافی بے زار اور بے مزا کر دیا ہے ۔ پہلی وجہ تو ہمارے فیصلہ سازوں کی تہی دامنی، تنگ نظری، کج فہمی اور بد انتخابی ہے۔اتنے اعلی مقام پر ان تینوں قباحتوں کی سرعام موجودگی مجھے اچھی نہیں لگی۔ دوسری وجہ کم صلاحیت اور منصب کے لیے اہلیت نہ رکھنے کے باوجود ایک بڑے ادبی ادارے کو زیر تصرف لانے کی ناواجب کوشش ہے۔ اور اسی کوشش کی بنیاد بننے والے نام نہاد میرٹ پر بھی افسوس ہے کہ جس میں پہلے نمبر پر ایک ایسے جونیئر اہلکار کو رکھا جاتا ہے، جو خدمتگار ہو تو ہو، تخلیق کار ہرگز نہیں، یعنی جس بے چارے کا تخلیقی ادب سے ہزاروں نوری سال سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہو، اسے پینل پر پہلے نمبررکھنے والوں کو ”عبور دریائے شور” کی سزا تو لازماً دینی چاہیئے۔اسی حرکت سے ایسے سلیکشن بورڈز کی ذہنی پسماندگی اور اخلاقی تنزلی کا اندازہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ تیسری وجہ ملک میں شرمناک تنزلی کو محض ایک اخباری خبر سمجھ کر لاتعلقی اختیار کرنے والا رویہ ہے۔یہ لاتعلقی والا رویہ ہی کمتر اور نااہل افراد کو کھل کھیلنے اور غل مچانے کی ہمت عطا کرتا ہے۔ دراصل پاکستان میں علمی و ادبی اداروں کے سربراہان کے تقرر کے لیے وفاقی حکومت کے کار گزاران از قسم متعلقہ وفاقی وزیر (یا مشیر بے تدبیر)، وفاقی سیکریٹریز،اور سلیکشن بورڈز کے لیے منتخب کئے گئے ”پیشہ ور ماہرین ” کی اہلیت، قابلیت، صلاحیت اور نیت کا پردہ اس عمل نے بری طرح سے چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ اس ساری کارروائی سے یہ راز کھل چکا ہے کہ؛ یہاں اندھے کی ریوڑیوں والا معاملہ نہیں، یہ بندر کے ہاتھ میں استرے والا کھیل ہے۔ اس کھیل سے پاکستان میں وفاقی وزارتوں اور وفاقی سیکریٹریوں کی اہلیت، صلاحیت اور قابلیت پر جو سوال اٹھے ہیں، ایک پاکستان شہری کے طور پر ان پر بات کی جاسکتی ہے۔سب سے پہلے مطالعہ پاکستان کے تمام طالب علموں اور محققین کو اطلاع ہو کہ؛ طویل عرصہ حکومت کرنے، برطرف ہونے، بیرون ملک چلے جانے، پھر حکومت کرنے،پھر برطرف ہونے اور پھر بیرون ملک سٹک جانے کے باوجود سیاسی جماعت ن لیگ نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔خاص طور پر اعلی تعلیمی اور ارفع علمی و ادبی اداروں کے حوالے سے اس جماعت کا رویہ نہایت درجہ افسوسناک بلکہ اپنے نتائج کے اعتبار سے عبرتناک رہا ہے۔وفاقی وزارت تعلیم کےلئے جن وزیر صاحب کا انتخاب کیا گیا تھا،وہ سرعام گالی گلوچ کرنے میں فخر محسوس کرتے رہے۔ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا یہ عالم تھا کہ چند وفاقی یونیورسٹیوں کو طویل عرصے سے سربراہوں کے بغیر رکھ کر گزارا کرتے رہے۔خیر اب دو وفاقی یونیورسٹیوں میں تو متعلقہ تقرریاں عمل میں آ چکی ہیں،مگر جس یونیورسٹی سے انہوں نے اپنے آبائی حلقہ انتخاب شیخوپورہ میں یونیورسٹی کا ریجنل سنٹر بنوایا تھا،وہ ابھی تک مستقل سربراہ کے بغیر روزانہ کی بنیاد پر کام نبٹا رہی ہے۔اسی طرح وفاق میں ن لیگ کی حکومت نے ثقافت اور قومی ورثہ ڈویژن کو وفاقی وزارت تعلیم سے الگ کر کے اسے امیر مقام نامی ایک مشیر کے حوالے کر دیا تھا۔ اس سے پہلے نواز شریف کے سابق منقطع دور حکومت میں بھی ایک مشیر کو اس ڈویژن کا انچارج بنایا گیا تھا،جس نے وزیر اعظم سے خصوصی اجازت لے کر وفاق کے زیر انتظام تمام علمی و ادبی اداروں کے سربراہان کی تقرری کے قواعد و ضوابط معطل کروا کر اپنی منشا، مفاد اور مرضی کے زایدالعمر نفوس کو ان اداروں کا سربراہ بنایا تھا۔ ہماری نام نہاد علمی و ادبی اشرافیہ نے اس وقت بھی بے حسی، لاتعلقی اور جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تقرریوں کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے ادھر اودھر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔اب بھی جبکہ ن لیگ کو ڈیڑھ سالہ حکومت ملی،تب بھی انہوں نے اس اہم ڈویژن کا انچارج مشیر امیر مقام کو مقرر کیا۔جو لوگ ان حضرت کو جانتے یا کم از کم ایک بار دیکھنے کا تجربہ رکھتے ہیں،انہیں اندازہ ہو گیا ہوگا کہ مقامی سیاست کی مہارت اپنی جگہ، لیکن ان حضرت کا علم و ادب اور ثقافت و قومی ورثہ سے ہزار میل سے زیادہ فاصلہ ہے۔اپنی ڈویژن میں انہوں نے کتنے لوگوں کی بھرتیاں کس کس قیمت کے عوض کروائیں،میں تو نہیں جانتا لیکن کوئی بھی باخبر صحافی یہ کھوج لگا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ،ایوان صدر اور سیکرٹریٹ کے بالکل سامنے اور میریٹ ہوٹل اسلام آباد کے عقب میں واقع پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد میں کتنی بھرتیاں کروائی گئیں۔ بعض اداروں کے سربراہ جو دیا گیا ٹاسک مکمل طور پر پورا نہ کر پائے،ان سے ناراض بھی ہوئے۔اب جب سیاسی جماعتوں کے وزیر مشیر ذرا سی گنجائش ملنے پر اتنی تباہی مچا دیتے ہیں تو پھر عوام کو ہی کوئی فیصلہ کرنا ہوگا کہ؛ فیصلہ ساز غلط اور کمزور فیصلے کرکے خود کو فلم پاکیزہ کی مینا کماری کیوں سمجھنے لگتے ہیں۔اب اسلام آباد کا چلن یہ ہے کہ وزارت ہو یا کوئی ڈویژن، چلاتے بیوروکریٹ یعنی وفاقی سیکریٹری اور ان کے ہمنواہ ہی ہیں،اور کھاتے وفاقی وزیر یا وفاقی مشیر ہیں۔ایک اچھا سیکرٹری اسے خیال کیا جاتا ہے جو اپنے وزیر یا مشیر کی غیر قانونی خواہشات و مطالبات کو قانونی مہارتوں سے پورا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔اس بار ثقافت اور قومی ورثہ ڈویژن میں جو تماشے جس طرح اور ترنگ میں روا رکھے گئے۔ان کی غیر سنجیدگی اور احمقانہ پن کھل کر سامنے آ گیا ہے۔اور یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ؛ہمارے یہاں ہر فیلڈ میں مافیاز کی اجارہ داری قائم ہے۔ایسے مافیاز کے رسوخ کو توڑنے کےلئے بڑی حکمت اور ہمت درکار ہوتی ہے،یہ اوصاف دیہاڑیاں لگانے والے وزیروں اور مشیروں میں نہیں ہو سکتے۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے