شہباز شریف حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں جولائی کے بجلی کے بلوں میں ناقابل برداشت اضافہ کر دیا گیا مہنگا?ی کے ہاتھوں تنگ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ ملک کے بڑے شہروں قصبوں اور دیہات میں عوام بجلی کے بل ہاتھوں میں لئے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ خود سوزیاں کی گئیں ہیں بلوں کو آگ لگائی گئی دو ہفتوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور ہر طبقہ فکر کے لوگ اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ پی پی پی اے این پی جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کی قیادت بھی بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف عوام کے حق میں باہر نکل آئی ہے۔ نگران وزیراعظم انوارلحق کی صدارت میں کئی اجلاس ہو چکے ہیں جن میں عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کےلئے مختلف آپشنز پر غور کیا گیا۔ اسوقت نگران حکومت کو اصل مسئلہ یہ درپیش ہیے کہ ان کا مینڈیٹ محدود ہے پاکستان کی سابقہ حکومت نے قرضہ حاصل کرنے کےلئے آئی ایم ایف سے ان کی اپنی شرائط پر معاہدہ کیا۔ نگران حکومت بین الاقوامی فنڈ سے کیے ہوئے معاہدے سے مکر نہیں سکتی کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت نے ائی ایم ایف کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑا تو اس کا خمیازہ اتحادی حکومت اور پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کےلئے حکومت کو قرضے کے حصول کےلئے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ نگران صرف الیکشن کروانے کےلئے 90 روز کےلئے آئے ہیں۔ پھر بھی وزیراعظم نے عوام کو مناسب ریلیف دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ابتدائی طور پر واپڈا کے گریڈ سترہ سے بائیس کے افسران کے فری یونٹس ختم کر دیے ہیں۔ لیکن ججوں اور بیورو کریٹس کو دی چانے والے بجلی کے یونٹس واپس نہیںلئے۔ نگران کوئی انتظامی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کےلئے نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے آئی ایم ایف کے ساتھ ورچوئل مذاکرات کا آغاز کر دیاہے۔ انہوں نے مالیاتی فنڈ کے حکام کو بجلی کے بھاری بلوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے ملک گیر ہنگاموں مظاہروں سے آئی ایم ایف حکام کو آگاہ کیا۔ انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ عوام کو ریلیف دینا ہماری مجبوری ہیے۔ فنڈ حکام نے بجلی کے بلوں میں سبسڈی اور ٹیکس کم کرنے کی صورت میں ان شعبوں کی نشان دہی کےلئے کہا ہے جن سے ریونیو اکٹھا کرکے سالانہ ٹارگٹس پورے کیے جا سکیں۔ مالیاتی فنڈ نے تحریری طور پر آگاہ کرنے کےلئے کہا ہے۔ ایف بی آر حکام نے حکومت کو یقین دلایا ہے کہ سالانہ ٹیکس ٹارگٹس آسانی سے حاصل کر لئے جائیں گے۔ امید کی جا رہی ہے کہ مالیاتی فنڈ کی انتظامیہ کسی درمیانی راستے پر راضی ہوجائیگی۔ لیکن حکومت ابھی زبانی جمع خرچ ہی کر رہی ہیے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مظاہروں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ابھی بجلی کے بلوں کے بارے میں عوام سڑکوں پر تھے کہ حکومت نے ایک بار پھر عوام پر پٹرول بم گرا دیا اور پٹرول 306 روپے لیٹر ہو گیا ہے کوئٹہ میں پٹرول پمپس ویران نظر آ رہے ہیں اور عوام سستا ایرنی پٹرول خرید رہے ہیں۔ اب سرکاری ملازم ہوں پرائیویٹ فیکٹریوں میں کام کرنےوالے ورکرز یا دیہاڑی دار مزدور کی تنخواہوں میں تو روزانہ کی بنیاد پر اضافہ نہیں ہوتا لیکن بجلی کی قیمتیں ہر ماہ تبدیل ہوتی ہیں اور پٹرول کی قیمتوں میں ہر پندرہ روز بعد ردوبدل کیا جاتا ہے عوام جائیں تو کدھر جائیں۔ اس وقت ملک کو شدید قسم کے سیاسی اور معاشی بحران کا سامنا ہے۔ مخصوص قسم کے تاجر مافیہ کی وجہ سے چینی جو کہ ہر آدمی کی روزانہ کی ضرورت ہے اسے پاکستان بھر کے تاجروں اور شوگر مالکان نے وسیع پیمانے پر بڑے بڑے گوداموں میں چھپا رکھا ہے۔ مبینہ طور پر مقامی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی ملی بھگت سے قیمتوں میں اضافے کےلئے چینی کا ذخیرہ کیا ہوا ہے ۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں اے سی اور ڈپٹی کمشنز بھی چینی مافیہ کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کے پاس ایف آئی اے رینجرز کسٹمز اور دیگر فورسز بھی موجود ہیں ان کو حرکت میں لا کر چینی کے بڑے بڑے گوداموں پر چھاپے مار کر چینی برآمد کی جا سکتی ہے تاکہ مصنوعی قلت ختم ہو اور قیمتوں میں استحکام آئے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری حکومتی مشینری چینی کے مل مالکان جن کا تعلق کئی سیاسی جماعتوں سے ہے بے بس نظر آرہی رہی ہے۔ وزیراعظم نے سمگلنگ کی روک تھام کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ پاکستان کسٹمز کی ٹیم نے کے پی کے بلوچستان بارڈر پر چھاپہ مارکر چینی کے پنررہ ٹرک پکڑے ہیں کسٹمز کی یہ کارروائی قابل ستائش ہے۔ ڈالر کی قیمتوں کوہی پر لگ گئے ہیں اور اب ڈالر تین سو سے اوپر چلا گیا ہے اس کی بڑی وجہ منافع بخش بزنس کے طور پر ڈالرز کی مقامی سطح پر زخیرہ اندوزی اور افغانستان کی جانب سمگلنگ ہے ڈالر کی قیمتوں کو نیچے لانے کےلئے ڈالر کی سمگلنگ روکنا ضروری ہے۔ بجلی بلوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ رک نہیں رہا ۔ اب پنجاب بار کونسل اور دیگر وکلا تنظیمیں بھی اس میں شامل ہو گئی ہیں مختلف شہروں میں تاجروں اور وکلا کا احتجاج جاری ہیے وکلا نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا لوگ بجلی کے بل اٹھائیے اور میٹر گلوں میں ڈالے سڑکوں پر آ گئے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق آئی یم ایف بیل آوٹ کے باوجود افراط زر سال بہ سال 24.7 فیصد رہا اور قیمتوں میں ہر ماہ 1.7 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہنگاموں کی شدت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے نگران حکومت کی ڈیڈ لائن ختم ہو گئی بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے میں جتنی دیر ہوگی اتنا ہی پہلے سے تباہ حال معیشت کا نقصان ہو گا حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر ٹیکسز,سرچارجز ,فیول ایڈجسٹمنٹ اور کیپیسٹی پیمنٹ کے خاتمے کے سلسلے میں کوئی قابل قبول حل نکالنا ہوگا۔ رعائتی یونٹس کی حد بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔ ورنہ ہڑتالوں ریلیوں شٹر ڈاﺅن کی شدت بڑھتی جائے گی اور حالات کنٹرول سے باہر بھی ہو سکتے ہیں نگران حکومت کو جلد بجلی کے بلوں میں بڑلے ریلیف کا اعلان کرنا ہو گا۔