کالم

یوم سیاہ تجدیدِ عہد کا دن

رات تو سیاہ ہوتی ہی ہے مگر جارحیت سے کسی کے وطن پر تسلط جما لیا جائے تو وہاں دن بھی سیاہ ہو جاتے ہیں۔ سیا ہ رنگ جہاں سوگ کی علامت قرار پاتا ہے وہاں غرور و تکبر کی پہچان بھی ہے۔ اندھیروں کا بسیرا ہو تو زندگی تنگ ہو جاتی ہے مگر انسان آزادی سے زندہ رہنے کے لئے پھڑ پھڑ اتا ہے، ہاتھ پاوذں مارتا ہے۔ کچھ یہی حال مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کا ہے۔27اکتوبر1948کو ہندوستان نے ریاست جموں کشمیر پر زبردستی قبضہ کر کے کشمیریوں کےدن رات سیاہ کر دئیے۔ یہ دن کشمیریوں کے لئے یوم سیاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ 75 برسوں کے اس طویل سیاہ اور پراشوب دور کو روشنیوں سے منور کرنے کے لیے کشمیری ہر سال 27 اکتوبر کو یوم سیاہ مناتے ہیں۔ کشمیریوں کی تیسری نسل بھی اندھیروں کو اجالوں میں بدلنے کیلئے اپنے پیاروں کے خون کا نذرانہ پیش کر رہی ہے،
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
5 اگست 2019 کو بھارت نے یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر آرٹیکل 370A اور 35 کو ختم کر کے کشمیریوں کو مزید گھپ اندھیر وں میں دھکیل دیا۔ وادی کو ایک کروڑ 30 لاکھ باشندوں کیلئے تاریک جیل بنا دیا گیا۔ طویل کرفیو، انٹرنیٹ کے علاوہ تعلیمی اداروں کی بندش، ہزاروں گھروں کا نذر اتش کیا جانا، لاکھوں خواتین کی عصمت لوٹنے کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو معذور کر دیا گیا اور خطے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔ بھارت کے ظالمانہ اقدامات سےکشمریوں کو معاشی طور بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر اس وقت دنیا کے ان خطوں میں شامل ہو چکا ہے جہاں 9 لاکھ
فوجی تعینات ہیں۔ کشمیری 75سال سے ہندوستان کے وحشیانہ مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور ہندوستان کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے ڈیموگرافی بدل رہا ہے۔ غیر مقامی لاکھوں افراد کو رجسٹریشن اور ڈومیسائل سرٹفکیٹس جاری کئے گئے ہیں۔ عارضی رہائش پذیر لاکھوں افراد کو ووٹ کا حق دیدیا گیا ہے جو جمو ں کشمیر کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت ختم کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ پاکستان ایسے تمام یکطرفہ غیر قانونی اقدامات کو مسترد کر چکا ہے مگر عالمی برداری نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ جس نے ہندوستان کی درخواست پر 1948 میں کشمیر پر 3قراردادیں پاس کی تھیں اپنی ایک قرارداد پر عمل نہیں کرا سکا جس سے کشمیریوں اور عالمی برادری کا ادارے پر اعتماد کم ہوا ہے۔ کشمیریوں نے دھرتی ماں کی آزادی کیلئے اپنی نسلیں قربان کر دی ہیں اور اپنا مقدمہ دنیا کے ہر فورم پر اٹھایا ہے مگر عالمی برادری کی بے حسی اور لاپرواہی کی وجہ سے وہ آج بھی آزادی سے محروم ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت مسلہ کشمیر کو خود سلامتی کونسل میں لے کر گیا تھا اور یہ مسلہ حل طلب اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ اس کا حتمی حل اقوام متحدہ کی سربراہی میں شفاف رائے شماری ہی میں ہے۔پاکستان 1948 سے ہی کشمیر کا مقدمہ ہر سطح پر بھرپور طریقے سے لڑ رھا ہے اور ہر ممکن سفارتی، سیاسی اور اخلاقی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ تنازع کشمیر پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 3جنگیں ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے21ستمبر کو سلامتی کونسل میں جو تاریخی تقریر کی تھی وہ آج بھی کشمیریوں او پاکستانیوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمان ہے۔ تقریر نے اپنی اس تقریر میں کہا تھا، جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ نہیں ہے اور نہ ہی رھا ہے۔ جموں و کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ
ہے۔ یہ اپنی تمام تر فصاحت و بلاغت اور الفاظ کے تمام تر اسراف کیساتھ پاکستان کا کہیں زیادہ حصہ ہے جتنا ہندوستان کا ہو سکتا ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگ نسلی و لسانی طرز زندگی ثقافت، جغرافیے اور تاریخی لحاظ سے بھی اور ہر شکل میں پاکستان کا حصہ ہیں۔ ہم اپنے دفاع کی جنگ ایک ہزار سال تک لڑیں گے۔ حکومت پاکستان اور پاکستانی قوم اب بھی مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر من و عن عمل اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق چاہتی ہے۔ سلامتی کے 78ویں اجلاس میں نگران وزیراعظم نے پر زور انداز میں مسلہ کشمیر پر پاکستان کہ اس موقف کو دہرایا کہ کشمیریوں کیساتھ رائے شماری کے ذریعے حق خودارادیت کا وعدہ پورا کیا جائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیا جائے وہ اجلاس کو مسلہ کشمیر پر متوجہ کرنے میں بھی کامیاب ہوئے اور اعلیٰ سفارتی فورم پر انہوں نےفاسسٹ ہندو توا سے متاثرہ انتہا پسند گروپوں سے بڑھتےشتگرد وں سے موثر انداز سے نمٹنے کی ضرورت پر زوردیا جموں وکشمیر میں میں جو کچھ اس وقت ہو رھا ہے پاکستان اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ پاکستان نے ہمشیہ عالمی برادی کی توجہ جموں و کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی طرف دلاتے ہوئے انہیں بند کرانے کیلئے کردار ادا کرنے کو کہا۔ ضروری ہے کہ انسانی حقوق کا راگ الاپنے والی تنظیمیں اپنی خاموشی توڑیں، آنکھیں کھولیں اور ہندوستان کے جیلوں میں بند انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور سیاسی قیدیوں کو رھا کرنے پر آمادہ کریں۔ جموں و کشمیر سمیت دنیا بھر میں کشمیر بلیک ڈے منانے کا مقصد 27 اکتوبر 1948 اور 5اگست کے بھارتی اقدامات کیخلاف احتجاج ہے۔ یوم سیاہ جہاں کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کا اظہار ہے وہاں عالمی برادری کے سامنے بھارت کے مکروہ اور خون آلودہ جہرے کو بے نقاب کرنا اور مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب اندھیرے چھٹ جائیں گے اور کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہو گا
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے