کالم

یونیورسٹیوں کی خود مختاری

اعلیٰ تعلیم و تحقیق کی لازمی شرائط میں ذہنی آزادی ، بے خوف ماحول، کامل مساوات ، فیصلہ سازی میں جبر سے پاک کھلا پن اور یونیورسٹی کی مکمل طور پر خود مختاری شامل ہیں ۔ یونیورسٹی کی خود مختاری سے مراد یہ ہے کہ اعلی تعلیم و تحقیق کا ادارہ اپنے نصابات ، اپنے معیار، اپنے قوانین و قواعد و ضوابط اور اعلی تعلیم و تحقیق و تدریس سے متعلق نیز اپنے اساتذہ کی شرائط ملازمت سے متعلق ہمہ قسم اور ہمہ جہت فیصلہ سازی کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہو ۔اس آزادی اور خودمختاری پر کوئی دوسرا ادارہ معترض،متصرف اور حاکم نہ ہو۔بد قسمتی سے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو جب ہایئر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان میں تبدیل کیا گیا ،تو گویا دھونس ، دھاندلی ، مداخلت اور لٹھ برداروں کی لٹھ ماری کا تو گویا ایک دبستان ہی کھل گیا۔ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کو قائم کرنے والوں کو وقت کے ڈکٹیٹر کی مکمل اعانت اور اعتماد حاصل تھا ، لہٰذا کھل کھیلا گیا۔ہایئر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کا اپنا تنظیمی ڈھانچہ اتنا بڑا بنا لیا گیا کہ اعلی تعلیم کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں اور مراعات کی نذر ہوا، بقیہ رقم کو انواع و اقسام کے پراجیکٹس اور گرانٹس کے نام پر کھانے پینے کے طریقے اور سلیقے مرتب کیے گئے۔پاکستان پر حکومت کرنے والی اشرافیہ ہایئر ایجوکیشن کا نام ہی سن کر گبھرا جاتی ہے، وجہ تعلیم کی کمی اور جھجک ہے۔بات چل نکلی، پرائیویٹ سیکٹر کے سرمایہ دار بھی "ہایئر ایجوکیشن کے بزنس "میں کود پڑے ۔اور پھر جو کچھ ہوا ، وہی کچھ بدستور ہو رہا ہے ۔ یہ سارا فساد ایچ ای سی کے ناپختہ مگر محدود اہداف کےلئے چالاک ذہنوں کی تخلیق ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ؛ یونیورسٹی کی خودمختاری کا دفاع اور اس خودمختاری کو استعمال کون کرے گا؟ وائس چانسلر ۔وہ تو پہلے ہی ایچ ای سی کا او سی ڈی کا مریض ہے ۔وہ تو ایچ ای سی کی منشا کے خلاف سانس بھی نہیں لیتا ، اگر پوچھا جائے کہ ایچ ای سی کا کیا اختیار ہے کہ وہ یونیورسٹیوں کو پالیسیاں بنا کر دے؟
اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے گا۔یونیورسٹیوں میں غلط طور پر یہ تاثر محکم کر دیا گیا ہے کہ ٹیچرز صرف سلیکشن کے ذریعے آگے بڑھ سکتے ہیں ،پرموشن کے ذریعے نہیں۔ان دونوں کا ایک تناسب ہوتا ہے ۔سلیکشن کے رولز بنا کر ،پروموشن رولز وضع نہیں کیے گئے۔دوسری طرف ایچ ای سی نے ایک متوازی بدعت ٹینیور ٹریک سسٹم کی شروع کر رکھی ہے۔جہاں ایک بار سلیکشن اور بقیہ درجات میں پروموشن ہوتی ہے۔پھر کارکردگی کے جو پیرا میٹر، ایچ آی سی نے وضع کیے ہیں ان میں سے شاید ہی کسی کا تعلق بطور استاد کلاس روم میں کارکردگی کےساتھ ہو ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک سے زیادہ مصنفین کےساتھ جعلی پبلیکشرز بناکر ، کچھ فراڈ قسم کی گرانٹس اینٹھ کر قابلیت و اہلیت پوری کر لی جاتی ہے۔ایک اور بدعت یونیورسٹیوں کی الحاق کمیٹیاںبھی ہیں۔اس تصور کو سرے سے ختم کرنا ہوگا ۔ ہر یونیورسٹی اپنی حدود میں کام کرے ۔ پوسٹ گریجویٹ سطح پر پبلک سیکٹر کے کالجز کا الحاق ہوا کرے۔ اور وہ بھی طے شدہ طریقہ کار کے مطابق۔سارا فساد پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کے الحاق سے پیدا ہو رہا ہے۔اب یہ پرائیویٹ مافیا یونیورسٹیوں سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکا ہے ۔مبینہ طور پر یہ مافیا یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر لگوانے کےلئے انویسٹمنٹ کرتا اور منافع سمیٹتا ہے۔ وائس چانسلر ایک معزز اور مہذب نیز پروقار منصب ہوا کرتا تھا۔مگر اب اس منصب کو منڈی بنا کر رکھ دیا ہے۔ کچھ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم و تحقیق کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ہمارے سوچنے سمجھنے والے بڑے عالی دماغ اور راست فکر لوگ بھی مصلحت کا قہوہ پی کر خاموش رہنے کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔ہایئر ایجوکیشن کمیشن کی حکمت عملی نے یونیورسٹیوں کی خودمختاری کا قلع قمع کرنے کا آغاز وائس چانسلر کے منصب کی تحدید سے کیا۔اسکے خلاف عام لوگ زیادہ علم نہیں رکھتے،ان کے خلاف صرف یونیورسٹیوں کے پروفیسرز ہی متحد اور یک زبان ہو کر تحریک چلا سکتے ہیں۔ ایک یونیورسٹی کو ساری مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر اپنی خودمختاری کو روبہ عمل لانا چاہئے۔ کسی ادارے کی کیا جرات کہ وہ کسی باوقار یونیورسٹی کو کوئی حکم جاری کرے۔ہمیں اعلیٰ تعلیم کو اپنی سوچ کا محور و مرکز بنانے کی بجائے تعلیم کی مضبوط اور دیرپا بنیادوں کو توجہ اور حکمت عملی کا مرکز بنانا ہوگا۔ہمیں اعلی تعلیم کے متبادل تصور یعنی پرائمری ،سکینڈری اور ہائر سکینڈری ایجوکیشن سسٹم کی طرف متوجہ ہونا ہو گا۔اس نظام کو یکساں اور بہتر بنانے کے بعد پھر ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو اس پر اعتبار کرنا چاہئے۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ بدنام زمانہ این ٹی ایس نے ٹیسٹوں کے نام پر اربوں روپے کمائے،بعد میں اس کے جلیل القدر چیئرمین کی اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری ہی جعلی نکلی اور وہ کیس درج ہونے پر ملک سے فرار ہوگیا تھا۔پاکستان میں کسی نے یونیورسٹیوں کے خودمختار کردار کو ایک طرح سے ختم کر کے رکھ دیا اور پورے ملک میں کوئی نہیں بولا۔پاکستان میں ہائر ایجوکیشن سسٹم تباہ و برباد ہو چکا ہے۔اگر ملک میں وکلا تحریک چل سکتی ہے تو ہائر ایجوکیشن کو بچانے کے لیے پروفیسرز آگے کیوں نہیں آتے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے